روسی زبان بولنے والی اقلیتیں، بالٹک کی ریاستوں میں بھی تشویش
25 مارچ 2014اس تشویش کی وجہ ان ملکوں میں روسی زبان بولنے والی ان نسلی اقلیتوں کی موجودگی ہے جن کے بارے میں پائی جانے والی ہمدردیاں ان ریاستوں کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی ہیں۔
لیٹویا میں داؤگاوپِلس نامی ایک چھوٹا سا شہر ایسا بھی ہے، جہاں روسی زاروں کے زمانے کا ایک قلعہ بھی موجود ہے اور سابق سوویت یونین کے دور میں تعمیر کیے گئے رہائشی اپارٹمنٹ بلاکس بھی۔ اس شہر میں زیادہ امکان یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی آپ سے مخاطب ہوگا تو وہ لیٹوین کے بجائے روسی زبان بولے گا۔ اس لیے کہ اس شہر کے 51 فیصد باشندے نسلی طور پر روسی ہیں اور روسی زبان ہی بولتے ہیں۔
لیٹویا کا یہ علاقہ روس کے ساتھ بین الاقوامی سرحد سے صرف دو گھنٹے کی مسافت پر ہے اور آج تک وہاں کوئی نسلی تنازعہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ لیکن اسی شہر کی رہنے والی 59 سالہ اِیرینا گورکینا کہتی ہیں کہ وہاں سب کچھ ٹھیک بھی نہیں ہے۔ لیٹویا کی اس خاتون شہری کے والد لیٹویا میں پیدا ہوئے تھے اور والدہ روس میں۔
اِیرینا گورکینا کہتی ہیں کہ اس علاقے میں اقتصادی ترقی کی رفتار بہت کم ہے اور پینشن کی رقم بھی کافی نہیں ہوتی۔ لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس سرحدی شہر میں ایسے حالات کا سامنا صرف روسی زبان بولنے والے شہریوں کو ہی نہیں بلکہ لیٹوین باشندوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔
لیٹویا میں ایسے حالات پر برسلز تک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ Daugavpils کی مثال دیتے ہوئے یورپی یونین کے ایک اہلکار نے کہا کہ لیٹویا میں قریب 35 فیصد لوگ روسی زبان بولتے ہیں اور کریمیا کے بحران کو مد نظر رکھا جائے تو کم از کم آج کل یہ کوئی بہت آرام دہ احساس نہیں ہے۔
لیٹویا کی مجموعی آبادی دو ملین اور اس میں روسی زبان بولنے والے شہریوں کا تناسب 35 فیصد۔ اس کے برعکس بالٹک کی ایک اور جمہوریہ ایسٹونیا کی آبادی محض 1.3 ملین ہے اور وہاں قریب ہر چوتھا شہری روسی زبان بولتا ہے۔ بالٹک کی تیسری جمہوریہ لیتھوانیا ہے، جس کی قومی سرحدیں روس کے ساتھ نہیں ملتیں لیکن وہاں بھی روسی زبان بولنے والی نسلی اقلیتی آبادی کا تناسب چھ فیصد بنتا ہے۔
بالٹک کی یہ تینوں ریاستیں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں بھی شامل ہیں اور یورپی یونین کی رکن بھی ہیں۔ لیٹویا اور ایسٹونیا یورپی مشترکہ کرنسی یورو اپنا چکی ہیں جبکہ لیتھوانیا میں یورو کا اجراء اگلے سال عمل میں آئے گا۔ یہ تینوں ریاستیں ماضی میں سوویت یونین کا حصہ رہ چکی ہیں لیکن ان کا رجحان کئی سالوں سے واضح طور پر مغربی یورپ کی طرف ہے۔ دوسری طرف ان ریاستوں کا توانائی کے لیے روس پر انحصار بھی بہت زیادہ ہے اور ان کے ماسکو کے ساتھ تجارتی رابطے بھی بہت گہرے ہیں۔
بالٹک کی ان ریاستوں کے لیے اس وقت جو بات پریشانی کی وجہ بنی ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے دور میں ہزار ہا روسی باشندے روزگار کے لیے بالٹک کے علاقے میں آئے۔ 1991ء میں بالٹک کی تینوں ریاستوں کی مکمل خود مختاری اور آزادی کے بعد وہاں روسی نسل کے باشندوں کو خود بخود ہی مقامی شہری حقوق نہیں ملے تھے۔
ان ملکوں میں لاکھوں باشندے ابھی بھی وفاق روس کے شہری ہیں، جن میں سے بہت سے خود کو ان ملکوں میں دوسرے درجے کے شہری سمجھتے ہیں۔ صرف لیٹویا میں قریب پونے تین لاکھ باشندے ایسے ہیں جن کے پاس مقامی شہریت نہیں ہے۔ ایسے باشندے نہ تو الیکشن میں ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ہر طرح کی پبلک سروس کے لیے مناسب امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔
اس پس منظر میں ایسے حقائق بہرحال باعث تشویش ہیں کہ مثال کے طور پر ایسٹونیا کے بڑے شہروں میں شمار ہونے والا شہر ناروا روسی سرحد کے قریب واقع ہے اور وہاں بھی روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ ناروا میں کچھ حد تک ہی سہی، لیکن وہی احساس پایا جاتا ہے جو یوکرائن کے خود مختار علاقے کریمیا میں دیکھنے میں آیا اور جس کا نتیجہ کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی صورت میں نکلا۔