1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی مائیں داعش میں شامل اپنی بیٹیوں کی تلاش میں

صائمہ حیدر
27 ستمبر 2017

غیر ملکی خواتین کی جہادی تنظیم داعش میں شمولیت کی متعدد رپورٹیں حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہیں۔ اب کچھ روسی خواتین بھی اپنی بیٹیوں کی تلاش میں ہیں جنہوں نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

https://p.dw.com/p/2kou9
IS Islamischer Staat Flitterwochen
تصویر: picture-alliance/AP

تین سال قبل روسی خاتون پیتیمت اتاگایے وا کی بیٹی خاموشی سے اپنے دس ماہ کے بچے کے ہمراہ داعش میں شمولیت کے لیے روس سے شام روانہ ہو گئی تھی۔ تب سے ہی یہ خاتون اپنی بیٹی اور نواسے کو تلاش کر رہی ہیں۔ اتاگایے وا  نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’ وہ ایک خوبصورت نوجواں خاتون تھی اور خاندان بھر میں بہترین،  وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟‘‘

اتاگایے وا  اور کئی دیگر خواتین جن کی بیٹیاں داعش میں شامل ہو گئیں، حکام سے ملاقات کے لیے جمع ہوئی تھیں۔ ان خواتین میں سے زیادہ تر کا تعلق چیچنیا، داغستان اور انگوشتیا سے تھا۔ ان میں سے ہر ایک کی کہانی کم و بیش ایک جیسی ہی تھی۔ یہ کہ اُن کی اچھی تعلیم یافتہ لڑکیاں خاموشی سے شام میں داعش میں موجود اپنے شوہروں کے پاس چلی گئیں اور برسوں سے وہیں رہ رہی ہیں۔

 زیارت نامی ایک اور نوجوان لڑکی جو داغستان میں انگریزی کی معلمہ تھی، سن 2015 میں چھٹیوں پر ترکی گئی تھی۔ اس کی والدہ نے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے خوش تھیں لیکن قریب ایک ماہ بعد انہیں ایک انجان نمبر سے ایک ٹیکسٹ میسج آیا جس کا مفہوم تھا،’’ امی میں گھر واپس نہیں آ سکتی۔‘‘ کچھ ماہ بعد اس کی بیٹی زیارت نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ اس کا شوہر موصل کی جنگ میں مارا گیا تھا۔ وہ رو رہی تھی اور ماں سے معافی کی خواستگار تھی۔

Irak Islamischer Staat Propagandafoto
تصویر: picture-alliance/Zuma Press

زیارت کی والدہ کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی کا آخری پیغام گزشتہ سال نومبر میں ملا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ مشکل میں ہے اور اگر دوبارہ اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ملے تو اس کے بچوں کو تلاش کر کے حفاظت سے اپنے پاس لے جائے۔

 ایک چیچین عورت جس نے اپنا نام پتیمت بتایا، کا کہنا تھا کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں اپنی بیٹی اور نواسوں سے شام کے شہر منجب میں ملنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ تب یہ شہر جہادی گروپ داعش کا گڑھ تھا۔ پتیمت نے بتایا کہ وہ لوگ برے حالات میں رہ رہے تھے لیکن میری بیٹی نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔

ماسکو کے ایک ہوٹل میں اے ایف پی سے ان خواتین کے علاوہ بھی کچھ روسی ماؤں نے بات چیت کی اور اپنی بیٹیوں کے چلے جانے کی کہانیاں بیان کیں۔ ان سب کا یہی کہنا تھا،’’ ہم رات کو سو نہیں سکتیں، اپنی بیٹیوں کے چہرے ہر وقت ہمارے سامنے رہتے ہیں۔‘‘