روسی مائیں داعش میں شامل اپنی بیٹیوں کی تلاش میں
27 ستمبر 2017تین سال قبل روسی خاتون پیتیمت اتاگایے وا کی بیٹی خاموشی سے اپنے دس ماہ کے بچے کے ہمراہ داعش میں شمولیت کے لیے روس سے شام روانہ ہو گئی تھی۔ تب سے ہی یہ خاتون اپنی بیٹی اور نواسے کو تلاش کر رہی ہیں۔ اتاگایے وا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’ وہ ایک خوبصورت نوجواں خاتون تھی اور خاندان بھر میں بہترین، وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟‘‘
اتاگایے وا اور کئی دیگر خواتین جن کی بیٹیاں داعش میں شامل ہو گئیں، حکام سے ملاقات کے لیے جمع ہوئی تھیں۔ ان خواتین میں سے زیادہ تر کا تعلق چیچنیا، داغستان اور انگوشتیا سے تھا۔ ان میں سے ہر ایک کی کہانی کم و بیش ایک جیسی ہی تھی۔ یہ کہ اُن کی اچھی تعلیم یافتہ لڑکیاں خاموشی سے شام میں داعش میں موجود اپنے شوہروں کے پاس چلی گئیں اور برسوں سے وہیں رہ رہی ہیں۔
زیارت نامی ایک اور نوجوان لڑکی جو داغستان میں انگریزی کی معلمہ تھی، سن 2015 میں چھٹیوں پر ترکی گئی تھی۔ اس کی والدہ نے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے خوش تھیں لیکن قریب ایک ماہ بعد انہیں ایک انجان نمبر سے ایک ٹیکسٹ میسج آیا جس کا مفہوم تھا،’’ امی میں گھر واپس نہیں آ سکتی۔‘‘ کچھ ماہ بعد اس کی بیٹی زیارت نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ اس کا شوہر موصل کی جنگ میں مارا گیا تھا۔ وہ رو رہی تھی اور ماں سے معافی کی خواستگار تھی۔
زیارت کی والدہ کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی کا آخری پیغام گزشتہ سال نومبر میں ملا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ مشکل میں ہے اور اگر دوبارہ اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ملے تو اس کے بچوں کو تلاش کر کے حفاظت سے اپنے پاس لے جائے۔
ایک چیچین عورت جس نے اپنا نام پتیمت بتایا، کا کہنا تھا کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں اپنی بیٹی اور نواسوں سے شام کے شہر منجب میں ملنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ تب یہ شہر جہادی گروپ داعش کا گڑھ تھا۔ پتیمت نے بتایا کہ وہ لوگ برے حالات میں رہ رہے تھے لیکن میری بیٹی نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔
ماسکو کے ایک ہوٹل میں اے ایف پی سے ان خواتین کے علاوہ بھی کچھ روسی ماؤں نے بات چیت کی اور اپنی بیٹیوں کے چلے جانے کی کہانیاں بیان کیں۔ ان سب کا یہی کہنا تھا،’’ ہم رات کو سو نہیں سکتیں، اپنی بیٹیوں کے چہرے ہر وقت ہمارے سامنے رہتے ہیں۔‘‘