روسی پاور پلانٹ کی تباہی، دہشت گردی یا حادثہ
22 اگست 2009حکام کا کہنا ہے کہ ڈیم کا سانحہ ایک حادثہ ہے، جو تکنیکی خرابی کے باعث پیش آیا۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ اس ڈیم پر حملے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ تفتیش کاروں کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جائے حادثہ سے دھماکہ خیز مواد بھی نہیں ملا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حادثے کا سبب جاننے کے لئے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس حوالے سے دہشت گردانہ کارروائی کے پہلو کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
اُدھر باغیوں کا کہنا ہے کہ سائیبریا میں واقع اس پاور پلانٹ پر ٹینک شکن گرینیڈ نصب کئے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حملے کا منصوبہ کافی عرصہ قبل بنایا گیا تھا۔
اس گروپ نے کہا تھا کہ ان کی اس کارروائی کا مقصد روس کے خلاف نئی 'اقتصادی جنگ' چھیڑنا ہے۔ باغیوں نے یہ بیان اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا ہے۔
اُدھر روسی وزیر اعظم ولادی میر پوٹین نے جمعہ کو اس پلانٹ کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر انہوں نے تسلیم کیا کہ اس سانحے میں 75 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیم پر ہونے والی تباہی ایک حادثہ تھا اور اس کا کوئی پہلو غیرواضح نہیں۔ انہوں نے اس واقعے پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیم کو بحال کیا جاسکتا ہے کہ لیکن ہلاک شدگان کا کوئی متبادل نہیں۔
باغیوں نے اپنے اس بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پیر ہی کو روسی علاقے انگوُشیتیا میں ایک پولیس ہیڈکوارٹر پر وہ خود کُش حملہ بھی اُنہوں نےکیا، جس کے نتیجے میں دو درجن افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ روسی حکام کی جانب سے باغیوں کے اس بیان پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
گزشتہ پیر کو ڈیم کا سانحہ اور انگُوشیتیا میں پولیس ہیڈکوارٹرز پر حملہ روس کے شمالی خطوں میں ہوا ہے، جہاں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان علاقوں میں اسلامی انتہاپسند ماسکو نواز مقامی حکام کے خلاف مسلح مزاحمت میں ملوث ہیں۔
ایسے ہی ایک تازہ حملے میں جمعہ کو چیچنیا کے دارالحکومت میں دو خود کُش حملوں میں چار پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی