1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اور امریکہ جوہری تخفیف اسلحہ معاہدے کے قریب

19 مارچ 2010

سرد جنگ کے دور میں خطرناک حریف امریکہ اور روس اب ایک دوسرے کے قریب آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/MWUV
امریکی وزیرخارجہ اپنے روسی ہم منصب کے ہمراہتصویر: picture alliance/dpa

ہلیری کلنٹن نے یہ بات ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوٴروف کے ساتھ ملاقات کے بعد کہی۔ دونوں رہنماؤں نے ملاقات کے بعد اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ امریکہ اور روس کے درمیان اب بہت جلد ہی ’سٹریٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی‘ طے ہو گی۔

روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوٴروف نےکلنٹن کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں ممالک کسی حتمی معاہدے کے انتہائی قریب ہیں۔ لاوٴروف کے مطابق مذاکرات کار اپنے کام کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں اور توقع ہے کہ وہ بہت جلد اپنا کام مکمل کر لیں گے۔

’’ہمیں اس بات کا یقین ہےکہ ہم جلد کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔ پھر اس بات کا فیصلہ کر دیا جائے گا کہ دونوں ملکوں کے صدور کب اس مجوزہ معاہدے پر دستخط کریں گے۔‘‘

امریکہ اور روس کے درمیان جوہری ہتھیاروں کو کم ترین سطح پر رکھنے کے معاہدے ’سٹارٹ‘ کی مدت گزشتہ برس دسمبر میں ختم ہوئی، جس کے بعد ان دونوں ممالک کے مابین تخفیف اسلحہ کے لئے کسی نئے معاہدے پر اتفاق کے لئے گزشتہ برس اپریل سے مذاکرات جاری ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ’سٹارٹ‘ نامی معاہدہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سن 1991 میں عمل میں آیا تھا۔

Putin kündigt Vergeltungsschläge gegen Georgien an Flash-Galerie
پوٹن نے ایران میں ایک نئے جوہری پلانٹ کی تنصیب کا اعلان کیا ہےتصویر: AP

امریکی وزیرخارجہ، روس کے ساتھ اس حوالے سے اہم مذاکرات کے لئے ماسکو کے دورے پر ہیں۔ اس دورے میں کلنٹن مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے حوالے سے ’کوارٹیٹ‘ کے اجلاس میں بھی جمعہ کے روز شریک ہو رہی ہیں۔ کلنٹن کے اس دورے کے دوران ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ روس اور امریکہ کے درمیان جنیوا میں جاری مذاکرات کے تازہ دور میں پیش رفت سے یہ بات عیاں ہے کہ فریقین معاہدے کے نزدیک تر پہنچ گئے ہیں۔

’’پچھلے برس جنیوا میں ملاقات کے بعد ہمارے صدور اور ہماری حکومتیں باہمی تعلقات کے ایک نئے دور کی شروعات میں مصروف ہیں۔‘‘

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اب بھی 2200 جبکہ روس کے پاس 3000 جوہری ہتھیار موجود ہیں، لیکن مجوزہ معاہدے کے مطابق ان ہتھیاروں کو کم کر کے بالترتیب 1500 اور 1675 کر دیا جائے گا۔

روسی میڈیا کی رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کا معاہدہ رواں برس اپریل سے کارآمد ہوجائے گا۔ ان رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر دیمتری میدودیف اس معاہدے پر ممکنہ طور پر 12 تا 13 اپریل امریکی میزبانی میں ہونے والی جوہری تخفیف اسلحہ عالمی کانفرنس سے قبل ہی دستخط کردیں گے۔ تاہم نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تخفیف اسلحہ کے معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مشرقی یورپ میں امریکی میزائل نظام کی تنصیب پر ماسکو کے خدشات ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں اوباما اور میدودیف کی ملاقات کے دوران دونوں رہنماوٴں نے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف پر اصولی طور پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

Symbolbild USA Russland
گزشتہ برس جولائی میں امریکی اور روسی صدور نے تخفیف اسلحہ پر اتفاق رائے ظاہر کیا تھاتصویر: AP

دوسری جانب بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ تقریباً گیارہ ماہ سے جاری ان مذاکرات کے اب تک کامیابی سے ہم کنار نہ ہونے کی وجہ اس حوالے سے اختیار کی ہوئی پالیسیوں میں پائے جانے والے فاصلے ہیں اور ان ’’تضادات کا نہ تو کلنٹن کو علم ہے اور نہ ہی لاوٴروف کو۔‘‘

ہلیری کلنٹن جمعہ کو روسی وزیراعظم ولادیمیر پوٹن سے بھی ملاقات کرنے والی ہیں۔ جمعرات کو پوٹن کی جانب سے سامنے آنے والے ایک بیان میں ایران میں ایک نئے جوہری ری ایکٹر کی تنصیب کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا، جس پر کلنٹن نے اپنے ردعمل میں سخت تشویش ظاہر کی۔ کلنٹن نے کہا کہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر بغیر کسی پیش رفت کے روس کی جانب سے ایسا بیان جلدی میں اٹھایا جانے والا قدم معلوم ہوتا ہے۔ کلنٹن نے مزید کہا کہ جب تک یہ بات طے نہیں ہوجاتی کہ آیا ایرانی پروگرام واقعی پرامن مقاصد کے لئے ہے، روس کا یہ اعلان تہران کے لئے ایک مضبوط پیغام کا باعث بن سکتا ہے۔

رپورٹ: عاطف توقیر/خبر رساں ادارے

ادارت: گوہر نذیر گیلانی