روس سرحدی کنٹرول کو مضبوط بنائے: پوروشینکو
30 جون 2014یوکرائن کے صدر پیٹرو پوروشینکو کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اتوار کے روز پوروشینکو نے روسی صدر ولایمیر پوٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ روسی سرحدوں کی نگرانی کو سخت کریں تا کہ مشرقی یوکرائن کے جنگجوؤں کے لیے اسلحے کی ترسیل کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے آنے والے جنگجوؤں کی آمد کو روکا جا سکے۔
ماسکو مسلسل اس کی تردید کرتا چلا آ رہا ہے کہ وہ یوکرائن کے علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ اتوار کے روز ہونے والی اس ٹیلی فونک کانفرنس میں یوکرائنی صدر کے علاوہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن شریک تھے۔ چاروں رہنماؤں کے درمیان آج پیر کے روز ایک مرتبہ پھر بات چیت کرنے کا ارادہ ظاہر کر رکھا ہے۔
مشرقی یوکرائن میں فائر بندی میں توسیع کی مہلت بھی آج پیر کے دن ختم ہو رہی ہے۔ ٹیلی فونگ گفتگو کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے دیگر شرکاء کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کے لیے اس معاہدے کی مدت میں توسیع کرنا از حد ضروری ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یوکرائنی صدر کی جانب سے فائربندی میں توسیع کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
پوروشینکو کی طرف سے کیے گئے فائر بندی کے اس یک طرفہ معاہدے کے باوجود متعدد مقامات پر باغیوں کے حملے جاری ہیں۔ یوکرائنی فوج کے مطابق گزشتہ روز بھی باغیوں نے مشرقی شہرسلاویانسک میں فوج پر حملے کیے لیکن کسی تازہ ہلاکت کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔ یہ حملہ یوکرائنی فوج کی ایک چیک پوسٹ پر کیا گیا تھا۔ حملے میں باغیوں نے ٹینکوں کو بھی استعمال کیا۔ چیک پوسٹ پر مارٹر گولے بھی داغے گئے۔ روسی نیوز ایجنسی انٹرفیکس نے مقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ یوکرائنی فوج نے بھی جواباً شیلنگ کی تھی۔
پوروشینکو کو مغربی اقوام کے پریشر کا سامنا ہے کہ وہ مشرقی یوکرائن کے باغیوں کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھیں تاکہ بحران کو مزید خون حرابے کے بغیر ختم کیا جا سکے۔ یوکرائنی بحران کے حل کے سلسلے میں مذاکراتی عمل میں امکاناً ڈونیٹسک اور لُوہانسک صوبوں کے علیحدگی پسند بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ صدر پٹرو پوروشینکو نے مذاکرات کے لیے سابق صدر لیونڈ کُوچما کو اپنا نمائندہ مقرر کر رکھا ہے۔ اس عمل میں روس کی نمائندگی کییف میں روسی سفیر کو سونپی گئی ہے۔ سکیورٹی و تعاون کی یورپی تنظیم OSCE بھی اس مذاکراتی عمل میں شریک ہے۔