1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس نے سلامتی کونسل میں اپنے خلاف قرارداد ویٹو کردی

1 اکتوبر 2022

قرارداد میں روسی مقبوضہ علاقوں میں ریفرنڈم کو''غیرقانونی‘‘ قرار دیا گیا تھا اور تمام ملکوں سے یوکرین کی سرحدوں میں کسی تبدیلی کو تسلیم نہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ چین اور بھارت نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

https://p.dw.com/p/4HcQb
UN Sicherheitsrat | Sitzung vom 23.08.2022
تصویر: Mary Altaffer/AP/picture alliance

یوکرین کے چار علاقوں کو روس کی جانب سے اپنے میں ضم کرنے کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمعے کے روز پیش کردہ قرارداد کو روس نے ویٹو کردیا۔ 10 اراکین نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ بھارت، چین، برازیل اور گیبون نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

یہ پہلے ہی یقینی تھاکہ روس اس قرارداد کو ویٹو کردے گا تاہم مغربی طاقتوں کو اس بات سے تھوڑا اطمینان ضرور ہوا کہ بیجنگ نے ماسکو کی حمایت نہیں کی اور اب اس قرارداد کو جنرل اسمبلی میں پیش کیا جاسکتا ہے، جس میں تمام رکن ممالک موجود ہوں گے۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے جمعے کی سہ پہر کو یوکرین کے چار علاقوں ڈونیٹسک، لوہانسک، ژاپوریژیا اور خیرسون کو روس میں ضم کرنے کا باضابطہ اعلان کرنے کے فوراً بعد امریکہ نے البانیہ کے ساتھ سلامتی کونسل میں روس کے خلاف ایک قرارداد پیش کی، جس میں ''بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ یوکرین کے سرحدوں کے اندرنام نہاد غیرقانونی ریفرنڈم کرانے کی مذمت‘‘ کی گئی تھی۔ اور یوکرین کی سرحدوں میں تبدیلی کوتسلیم نہ کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ قرارداد میں یوکرین سے روسی فوج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

 روس کے سفیر ویسلی نیبزیا نے سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن کی مذمت کرنے کے اس غیر معمولی رویے کی نکتہ چینی کی
 روس کے سفیر ویسلی نیبزیا نے سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن کی مذمت کرنے کے اس غیر معمولی رویے کی نکتہ چینی کیتصویر: Yuki Iwamura/AP/picture alliance

روس کا بیان

اقوام متحدہ میں امریکہ کی نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اس موقع پر کہا،''اقوام متحدہ کا قیام اس نظریے کے ساتھ ہوا تھا کہ کسی بھی ملک کو کبھی بھی زبردستی کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سلامتی کونسل کا مقصد خودمختاری کا دفاع کرنا، علاقائی سالمیت کی حفاظت کرنا اور امن اور سلامتی کو فروغ دینا ہے۔‘‘

 روس کے سفیر ویسلی نیبزیا نے سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن کی مذمت کرنے کے اس غیر معمولی رویے کی نکتہ چینی کی۔

نیبزیا نے کہا،''کیا آپ واقعی سنجیدگی سے اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ روس اس طرح کے مسودے پر غور اور اس کی حمایت کرے گا؟  اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ آپ جان بوجھ کر ہمیں ویٹو کا اپنا حق استعمال کرنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔‘‘

قبل ازیں جمعے کے روز ماسکو میں یوکرین کے چار علاقوں کے روس میں الحاق  کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمر پوٹن نے کہا، ’’میں یوکرین اور اس کے سرپرست مغربی ممالک کو کہنا چاہتا ہوں کہ ان چاروں علاقوں میں رہنے والے لوگ اب ہمشیہ کے لیے ہمارے شہری ہو رہے ہیں۔‘‘

روس کا یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کے الحاق کا اعلان جلد متوقع

یوکرین کے کئی علاقوں کے روس میں انضمام کے لیے ریفرنڈم شروع

روس سے الحاق کے لیے یوکرین کے کئی علاقوں میں ریفرنڈم پر مغرب کی تنبیہ

پوٹن کا کہنا تھا، ''ہم یوکرین حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اب وہ فوری طور پر تمام تنازعات اور جنگ ختم کرکے مذاکرات کی میز پر واپس آئیں۔‘‘

چین اور بھارت غیر حاضر

چین گوکہ قرارداد پر ووٹنگ سے غیر حاضر رہا تاہم اس نے یوکرین میں ''طویل اور بڑھتے ہوئے بحران‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔

اقوام متحدہ میں چین کے سفیر نے ایک بیان میں کہا،'' سات ماہ سے جاری یوکرین کے بحران کے مضمرات

اور منفی اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ یہ طویل اور بڑھتا ہوا بحران تشویش کا باعث ہے۔ چین اس کے عوامل سے سخت فکر مند ہے۔‘‘

خیال رہے کہ روسی  صدر پوٹن نے حال ہی میں اعتراف کیا تھا کہ چینی رہنما شی جن پنگ نے یوکرین کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یوکرین اور روس کے مابین جنگ و الزامات کا تبادلہ جاری

شی اور پوٹن کی عالمی نظام چیلنج کرنے کی کوشش کامیاب ہو گی؟

اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر روچیرا کمبوج نے ووٹنگ سے  بھارت  کی غیر حاضری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت یوکرین میں حالیہ واقعات سے کافی فکر مند ہے اور اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ انسانوں کی زندگیوں کی قیمت پر کوئی حل تلاش نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا،''ہم تمام متعلقہ فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ تشدد اور مخاصمت کو فوراً ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ خواہ صورت حال کتنی بھی پریشان کن نظر آئے لیکن بات چیت ہی تمام اختلافات اور تنازعات کو حل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ امن کے راستے پر آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ سفارت کاری کے تمام چینل کھلے رکھے جائیں۔‘‘

ج ا/ ش ر  (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)