روس کے ساتھ روابط، ٹرمپ کے سابق قریبی ساتھی نے اعتراف کر لیا
2 دسمبر 2017مائیکل فِلن کا یہ بیان گزشتہ برس امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے جاری تحقیقات میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ 58 سالہ ریٹائرڈ تھری اسٹار آرمی جنرل مائیکل فلِن صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ایسے سینیئر ترین سابق عہدیدار ہیں جو خصوصی تفتیش کار رابرٹ مُلر کی طرف سے جاری ان تحقیقات کا سامنا کر رہے ہے جو گزشتہ برس ہونے والے امریکی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے جاری ہیں۔
واشنگٹن میں ایک وفاقی کورٹ کے سامنے فلِن نے اعتراف کیا کہ انہوں نے دسمبر 2016ء میں روسی سفیر سیرگئی کِسل یَک کے ساتھ ٹرمپ کی ٹیم کے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر ایک خفیہ ملاقات کی تھی۔ ان کے اس اعتراف کے بعد واشنگٹن میں یہ اب یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ تفتیش کار رابرٹ مُلر کی تفتیش کا مرکز اب ری پبلکن جماعت کا کون سا رہنما ہو گا۔
مائیکل فلِن نے اعتراف کیا ہے کہ رواں برس جنوری میں انہوں نے ایف بی آئی کے تحقیقات کاروں سے ان کی روسی سفیر سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں غلط بیانی کی تھی۔ فلِن نے کہا ہے کہ وہ اس کیس کی مزید چھان بین کے لیے استغاثہ سے تعاون کریں گے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نام ظاہر کیے بغیر اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی منقتلی اقتدار کی ٹیم کے جن ’’بہت سینیئر‘‘ حکام نے مائیکل فلن کو روسی سفیر سے ملنے کی ہدایت کی ان میں صدر ٹرمپ کے داماد اور ان کی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار جیرڈ کُشنر بھی شامل ہیں۔
رابرٹ مُلر کی طرف سے جاری خصوصی تحقیقاتی عمل میں مائیکل فلن ایسے چوتھے شخص جن پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ فلن نے اعتراف کیا کہ انہوں نے کِسل یَک کے ساتھ ذاتی ملاقات میں ماسکو کے خلاف اُس وقت کی اوباما انتظامیہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔
امریکی ٹیلی وژن ABC نیوز نے خبر دی ہے کہ مائیکل فلن تفتیش کاروں کے سامنے یہ اعتراف کریں گے کہ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی انہیں ماسکو سے روابط کی ہدایت کی تھی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اس خیال کو رد کر دیا ہے کہ مائیکل فلن اپنے اس عمل کے بارے میں کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔
جب فلن نے روسی سفیر کے ساتھ یہ ملاقات کی تب وہ منتقلی اقتدار کے لیے کام کرنے والی ٹرمپ کی ٹیم کے ایک مشیر اور ساتھی تھے تاہم اس وقت ان کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں تھا۔ البتہ اُس وقت وہ ٹرمپ حکومت کے سلامتی کے حوالے سے مشیر بننے کے اہم امیدوار ضرور تھے۔ ٹرمپ حکومت بننے کے بعد انہیں یہ عہدہ دیا گیا تھا تاہم انہیں چند ہفتوں بعد ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔