رومانیہ، خاتون صحافی کی برہنہ تصاویر کے پیچھے کس کا ہاتھ؟
11 ستمبر 2022ایمیلیا سرکن نے گزشتہ سات برسوں میں سرقہ بازی کے تقریباً 50 واقعات کو بے نقاب کیا ہے۔ ان میں بڑی اعلیٰ حکومتی شخصیات بھی شامل ہیں۔ ایمیلیا نے ملکی وزراء، پراسیکیوٹرز اور ججوں کی کتابیں، سائنسی مضامین یا پی ایچ ڈی مقالے بطور حوالہ پیش کیے، جنہیں شائع کرتے وقت قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔
ان کا تازہ ترین تحقیقی مضمون رومانیہ کے وزیر اعظم اور سابق جنرل نکولائی چوکا کے بارے میں تھا، جو جنوری کے وسط میں ایک آزاد میڈیا آؤٹ لیٹ 'پریس ون‘ میں شائع ہوا۔
انہوں نے اپنے اس مضمون میں الزام عائد کیا کہ ملکی وزیراعظم نے سن 2003ء میں ملٹری سائنس کے موضوع پر اپنے ڈاکٹریٹ مقالے میں سرقہ بازی سے کام لیا تھا۔ الزام کے مطابق ڈاکٹریٹ مقالے کے 138 صفحات میں سے 42 صفحات میں سرقہ شدہ مواد استعمال کیا گیا۔
اس کے بعد سے اس خاتون صحافی کو سوشل میڈیا پر توہین آمیز اور نفرت انگیز تقاریر اور تبصروں کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ سرکن اب خود کو 'خطرے میں‘ محسوس کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم نکولائی چوکا ایک ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل ہیں، جنہوں نے عراق اور افغانستان میں بھی خدمات انجام دیں اور اب برسر اقتدار جماعت نیشنل لبرل پارٹی ( پی این ایل) کے سربراہ بھی ہیں۔ انہیں صدر کلاؤس لوہانس نے اس عہدے کے لیے چُنا تھا۔
55 سالہ وزیر اعظم نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تعلیمی اصولوں کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا اصرار کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میں نے سرقہ بازی نہیں کی۔‘‘
ایمیلیا سرکن کو اس سے قبل سن 2019ء میں ملک کی پولیس اکیڈمی میں پی ایچ ڈی کے مقالوں میں سرقہ کے واقعات کا انکشاف کرنے کے بعد بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ بعدازاں بخارسٹ کی ایک عدالت نے ایک ریکٹر اور ان کے نائب کو، جس نے ایک ماتحت پر دھمکی دینے کے لیے دباؤ ڈالا، کو تین سال کی معطل قید کی سزا سنائی تھی۔
چوری شدہ برہنہ تصاویر کی اشاعت
لیکن اس بار ان پر حملہ کرنے کے لیے وہ چوری شدہ برہنہ تصاویر استعمال کی جا رہی ہیں، جو ان کے منگیتر نے 20 سال قبل کھینچی تھیں۔
ایمیلیا سرکن کا اس حوالے سے کہنا تھا، ''میں نے تصاویر کے سکرین شارٹس پولیس کو بھیجے لیکن اس کے کچھ ہی دیر بعد وہ تصاویر ہمسایہ ملک مالدووا کی ایک ویب سائٹ پر شائع ہوئیں اور اس طرح مجموعی طور پر 74 ویب سائٹس نے انہیں شائع کر دیا۔‘‘
ایمیلیا سرکن کا ملکی حکام پر الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے، ''میری ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک منظم آپریشن کا اہتمام کیا گیا‘‘۔
اس حوالے سے استغاثہ نے ایک فوجداری مقدمے کا آغاز کیا ہے لیکن ایمیلیا سرکن کے مطابق تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، ''ریاست کی اعلیٰ سطح پر لوگ اس عمل میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اور وہ اس کیس کو دبانا چاہتے ہیں۔‘‘
صحافتی آزادی کے لیے کام کرنے والی دس تنظیموں بشمول رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے کہا ہے کہ وہ ایمیلیا سرکن کی ہراسانی سے پریشان ہیں۔ ان تنظیموں نے بھی مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمیلیا سرکن بخارسٹ یونیورسٹی میں صحافت کی پروفیسر بھی ہیں۔
سرقہ کے بارے امریکی مجوزہ قانون سازی اور وِکی پیڈیا کا احتجاج
رومانیہ کو یورپی یونین میں سب سے زیادہ بدعنوان ممالک میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور کمیونسٹ تاریخ کے بعد اس ملک میں تعلیمی فراڈ نے ایک خاص مقام حاصل کیا ہے۔ ملک کی اشرافیہ اسے اقتدار اور وقار کے شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
رومانیہ کی کلج یونیورسٹی کے پروفیسر سیپرین میہالی مقالوں میں سرقہ بازی کے مضمون کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں، ''کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد 1990ء اور 2000ء کے درمیان یونیورسٹیوں کا پھیلاؤ بہت تیزی سے ہوا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، '' پی ایچ ڈی کی ڈگری اقتدار کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کی سیڑھی بن گئی اور اس طرح سرقہ کی صنعت نے بھی تیزی سے ترقی کی۔‘‘
سائنسی جریدے نیچر کی طرف سے سن 2012ء میں رومانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم وکٹور پونٹا پر بھی سرقے کا الزام لگایا گیا تھا لیکن انہوں نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔
ا ا / ا ب ا ( اے ایف پی)