روہنگیا حملہ آوروں کے پاکستان میں رابطے ہیں، کرائسس گروپ
15 دسمبر 2016روہنگیا مسلمانوں کے شدت پسندوں نے رواں برس نو اکتوبر کو ایک حملے میں میانمار پولیس کے نو اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے کے حوالے سے انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے واضح کیا ہے کہ حملے کی قیادت وہ لوگ کر رہے تھے جن کے پاکستان اور سعودی عرب میں مسلح انتہا پسندوں سے روابط ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں نے یہ حملہ میانمار کی مسلمان اکثریت والی شمالی ریاست راکھین میں کیا تھا۔
نو اکتوبر کے حملے کی ذمہ داری ایک غیرمعروف عسکری گروپ حرکة الیقین نے قبول کی تھی۔ برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے اِس حملے کے بعد اِس گروپ کے چار افراد کے ساتھ گفتگو کی۔ اُن کے بیانات کے بعد ہی گروپ نے دو ملکوں میں اُن کے رابطوں کو اپنی رپورٹ میں بیان کیا۔ جن عسکریت پسندوں کے ساتھ گفتگو کی گئی، اُن میں سے دو میانمار اور دو دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں۔
گروپ کی رپورٹ کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے بعض افرادکچھ اور مسلح تنازعات میں بھی شریک رہ چکے ہیں اور ایسے تربیت یافتہ شدت پسندوں نے راکھین ریاست کے ایک خفیہ علاقے میں اپنے روہنگیا برادری کے چند افراد کو دو برس کے دوران مختلف اوقات میں چھپ چھپا کر ہتھیار چلانے کی تربیت دیتے ہوئے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
حرکة الیقین کے لیڈر کے طور پر عطا اللہ کا نام سامنے آیا ہے، جو پاکستانی شہر کراچی میں روہنگیا والدین کے گھر پیدا ہوا تھا۔ عطا اللہ کی ولادت کے چند برسوں بعد اُس کا والد اپنے بچے کے ہمراہ سعودی عرب کے شہر مکہ منتقل ہو گیا تھا۔ جوان ہونے کے بعد عطا اللہ کے پاکستان لوٹنے کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے جہاں متوقع طور پر اُس نے گوریلا جنگ اور ہتھیار سازی کی تربیت حاصل کی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لیڈر اُن بیس روہنگیا انتہا پسندوں میں شامل ہے، جو سعودی عرب سے راکھین ریاست میں مزید حملوں کی پلاننگ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
میانمار میں نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کی حکومت نے بھی اِس حملے کے تناظر میں کہا تھا کہ اس میں ممکنہ طور پر غیرملکی عناصر ملوث ہیں۔ حملے کے بعد میانمار کی حکومتی فوج کی کارروائی میں کم از کم ستاسی روہنگیا مسلمان ہلاک اور ستائیس ہزار کے قریب اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیشی سرحد کی جانب منتقل ہو گئے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ حرکة الیقین کا قیام سن 2012 میں آیا تھا لیکن اِس نے عسکریت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی جانب سے پہلا حملہ رواں برس اکتوبر میں کیا گیا۔