1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا مہاجرین کے کیمپ: عسکریت پسند پاؤں جمانے کی کوشش میں

24 ستمبر 2019

قتل، اغواء اور تعاقب کرنا، بنگلہ دیش میں مقیم لاکھوں روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں ڈھاکا حکومت کے دعووں کے برعکس روہنگیا عسکریت پسند کافی حد تک اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Q9Kt
تصویر: DW/ P. Vishwanathan

2017ء میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے کئی پولیس چوکیوں پر حملہ کردیا تھا۔ اس کے بعد جب ملکی فوج نے ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، تو لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان میانمار کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں مہاجرین کے طور پر پناہ گزین ہو گئے تھے۔ آج ان کیمپوں میں مقیم عسکریت پسند ان روہنگیا مہاجرین کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کے طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہیں۔

اب تک بنگلہ دیش میں ان روہنگیا مہاجرین کا سب سے بڑا کیمپ کوکس بازار میں ہے، جس کی گلیاں شام ہوتے ہی خالی ہو جاتی ہیں اور وہاں دو دو اور تین تین کے گروپوں میں ایسے نوجوان گشت کرتے نظر آتے ہیں، جو دراصل ایسے رضاکار روہنگیا چوکیدار ہوتے ہیں، جن کا کام وہاں موجود جرائم پیشہ گروپوں کی ممکنہ سرگرمیوں سے خبردار کرنا ہوتا ہے۔ اس کیمپ میں، جو دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہے، شام ہوتے ہی حکومت کی طرف سے لگایا گیا وہ کرفیو مؤثر ہو جاتا ہے، جس کے نفاذ کی وجہ اس کیمپ میں پائی جانے والی سلامتی کی کشیدہ صورت حال بنی تھی۔

اس کیمپ کے ایک حالیہ دورے کے دوران دو مقامی ذرائع کی مدد سے جب ڈی ڈبلیو کے صحافیوں کی ایک ٹیم نے ایک روہنگیا خاتون مہاجر کی رہائش گاہ کا دورہ کیا، تو اس خاتون نے بتایا کہ اس کے شوہر کو اس کے خیمے سے کچھ ہی فاصلے پر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس خاتون نے بتایا کہ اس کا شوہر روہنگیا مہاجرین کی فلاح کے لیے کام کرتا تھا اور مہاجرین کے مختلف کیمپوں میں نظر آنے والی بدسلوکی اور جرائم کو روکنے کا خواہش مند تھا۔

Bangladesch Rohingya Flüchtlinge Cox’s Bazar
وہ روہنگیا مہاجر خواتین جو ’مناسب لباس‘ نہ پہنیں، انہیں اپنے خلاف عسکریت پسندوں کی کارروائی کا خطرہ رہتا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hossain Opu

ڈی ڈبلیو کی طرف سے اس خاتون اور اس کے مقتول شوہر کی شناخت اس لیے ظاہر نہیں کی جا رہی تاکہ اس خاتون کو سلامتی کو، جو دو چھوٹے بچوں کی ماں ہے اور اب بیوہ ہو چکی ہے، مزید کوئی خطرہ نہ ہو۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر کا قتل روہنگیا عسکریت پسندوں کے ایک ایسے طاقت ور گروپ کے ارکان نے کیا، جو ایسے مہاجر کیمپوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور 'جنہیں روکنے والا تقریباﹰ کوئی نہیں‘۔

آراکان روہنگیا سالویشن آرمی

کوکس بازار کے اس روہنگیا مہاجر کیمپ کی رہائشی اس خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کے شوہر کا قتل ان لوگوں نے کیا، جن کا تعلق 'حرکہ الیقین‘ سے تھا۔ 'حرکہ الیقین‘ روہنگیا مسلمانوں کے اس عسکریت پسند گروپ کا سابقہ نام ہے، جس نے 2016ء میں اپنی شناخت بدل کر اپنا نام آراکان روہنگیا سالویشن آرمی یا 'ارسا‘ (ARSA) رکھا لیا تھا۔ یہ عسکریت پسند گروپ، جس کے چند سرکردہ روہنگیا ارکان مبینہ طور پر سعودی عرب اور پاکستان سے میانمار پہنچے تھے، بدھ مت کی اکثریت والے ملک میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا آبادی کے لیے خود مختاری کا نعرہ لگاتا ہے۔

'ارسا‘ کا نام پہلی بار اس وقت بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سرخیوں کی وجہ بنا تھا، جب اگست 2017ء میں اس گروہ کے ارکان نے میانمار کی ریاست راکھین میں ملکی فوج اور سرحدی حفاظتی پولیس کی تقریباﹰ 30 چوکیوں پر وہ منظم حملے کیے تھے، جن میں سرکاری ذرائع کے مطابق میانمار کی سکیورٹی فورسز کے 12 ارکان مارے گئے تھے۔ اس سے قبل اس ریاست میں 2016ء کے اواخر میں بھی انہی روہنگیا عسکریت پسندوں نے سکیورٹی دستوں کی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔ پھر جب حالات مزید بگڑ گئے، تو یہ تنازعہ اور بھی شدت اختیار کر گیا اور ملکی فوج نے راکھین میں ایک بھرپور کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا۔

فوجی کریک ڈاؤن کے دوران مظالم

اس کریک ڈاؤن کے دوران میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلم اقلیت کے کئی دیہات پر بمباری کی اور بہت سے گاؤں جلا کر راکھ کر دیے گئے تھے۔ ان حالات میں سات لاکھ تیس ہزار سے زائد روہنگیا باشندے دریائے نَف کی صورت میں میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان قدرتی سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔

دو سال قبل جب روہنگیا مہاجرین سے متعلق تنازعہ اپنے عروج پر تھا، بنگلہ دیشی حکومت نے ان لاکھوں مہاجرین کو اہنے ہاں نہ صرف قبول کیا تھا بلکہ ان کے لیے سرحد کے قریب ہی عبوری طور پر خیمے لگا کر ایسے مہاجر کیمپ بھی قائم کر دیے گئے تھے، جو مل کر اب دنیا کے سب سے بڑے مہاجر کمیپ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس کیمپ کے رہائشی یہ تصدیق کرتے ہیں کہ اس کیمپ میں 'ارسا‘ کے ایسے عسکریت پسند ارکان بھی موجود ہیں، جن کی وجہ سے راکھین میں اس نسلی اقلیت سے متعلق تنازعہ شدت اختیار کر گیا تھا۔

'بنگلہ دیش میں ارسا نہیں ہے‘

ڈھاکا میں بنگلہ دیشی حکومت ان دعووں کی تردید کرتی ہے کہ روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں 'ارسا‘ کے عسکریت پسند بھی موجود ہیں۔ اس بارے میں بنگلہ دیشی وزیر خارجہ ابوالکلام عبدالمومن کہتے ہیں، ''بنگلہ دیش میں 'ارسا‘ کا کوئی وجود نہیں، میانمار میں ہے۔ لیکن اگر ایسے کوئی عناصر بنگلہ دیش میں پائے گئے، تو اہم انہیں گرفتار کر کے میانمار حکومت کے حوالے کر دیں گے۔‘‘

اس کے برعکس اس مہاجر کیمپ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس کیمپ میں 'ارسا‘ موجود ہے اور عام مہاجرین کی اکثریت ان عسکریت ہسندوں کی موجودگی سے خوف زدہ بھی ہے۔ ڈی ڈبلیو اپنے طور پر اگرچہ ان دعووں کی تصدیق نہ کر سکا تاہم کئی روہنگیا مہاجرین نے بتایا کہ 'ارسا‘ ایک ایسا لفظ ہے، جس کے کان میں پڑتے ہی کوئی بھی گفتگو بالعموم وہیں پر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ 'اس گروپ نے ہر روہنگیا مہاجر کیمپ میں اپنے مخبروں کا جال بچھا رکھا ہے‘۔

تربیت پاکستانی طالبان کے ہاتھوں؟

'ارسا‘ کے بارے میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ (آئی سی جی) نامی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظم نے کہا تھا کہ اس گروپ کی بنیاد 2014ء میں رکھی گئی تھی۔ اس گروپ کا رہنما مبینہ طور پر عطااللہ نامی ایک ایسا روہنگیا مسلمان ہے، جو پاکستان میں ایک روہنگیا مہاجر خاندان میں پیدا ہوا تھا اور جس کا گھرانہ بعد میں اس وقت سعودی عرب چلا گیا تھا جب وہ ابھی نوجوان ہی تھا۔ آئی سی جی کے مطابق عطااللہ اور اس کے گروپ کے کئی سرکردہ ارکان نے عسکری تربیت پاکستانی طالبان سے حاصل کی تھی اور انہیں میانمار میں گوریلا کارروائیوں کے لیے یہ ٹریننگ پاکستان اور افغانستان میں دی گئی تھی۔

اس بارے میں پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں اعتراف کیا کہ ان طالبان نے روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروپ کو عسکری تربیت دی تھی۔ اس ترجمان نے بتایا کہ جب ٹی ٹی پی نامی اس تحریک کو میانمار کے مسلمانوں کی طرف سے یہ درخواست کی گئی تھی، تو پاکستانی طالبان اس سے انکار نہ کر سکے تھے۔

بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے اس کیمپ میں 'ارسا‘ کے عسکریت پسندوں کی موجودگی سے باخبر اسی کیمپ کے ایک رہائشی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بنگلہ دیش میں مہاجر کمیپوں میں روہنگیا عسکریت پسندوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار کے قریب ہے اور ان میں سے سینکڑوں خفیہ طور پر سرحد پار کر کے میانمار میں عسکری تربیت کے لیے بھی گئے ہوئے ہیں۔

ناؤمی کونراڈ، عرفات الاسلام

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں