ریاست کا عورت سے نامحرم جیسا فاصلہ
29 نومبر 2020یہی وسیلہ اس کو سماج کے بہت سارے اور وسائل سے بھی متعارف کرواتا ہے۔ بیسویں صدی کی بڑی تبدیلیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خواتین بڑے پیمانے پر لیبر مارکیٹ کا حصہ بنیں۔ اسی تبدیلی نے خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنایا۔
پاکستان کی آدھی آبادی وہ ہے، جسے ہم ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کہتے ہیں۔ پاکستان کی یہ نصف آبادی آج کے اس جدید دور میں بھی لیبر مارکیٹ کا حصہ نہیں بن پائی ہے۔ عورتوں کی کل آبادی میں سے صرف25 فیصد خواتین براہ راست لیبرمارکیٹ سے منسلک تو ہیں مگر اس 25 فیصد میں بھی زیادہ وہ ہیں جو پدر سری ثقافت میں جکڑی ہوئی ہیں۔ جو تھوڑا بہت کماتی اپنی محنت سے ہیں وہ خرچ کرنے کے لیے پدرسری سماج کی روایتوں کی پابند ہیں۔
طب کا واحد شعبہ، جو خواتین کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے وہاں تو اور زیادہ افسوسناک عالم ہے۔ پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان گورنمنٹ میڈیکل یونیورسٹیز میں 70 فیصد سے زیادہ طالبات ہوتی ہیں، لیکن ملک میں مصروف عمل ڈاکٹروں کا یہ صرف 23 فیصد تک ہیں۔
اس سماجی مسئلے کے حل کے لیے 2016 میں پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل نے سلیکشن سسٹم میں ترمیم کرنے کے فیصلے کی شکل میں حل نکالنے کی کوشش کی گئی۔ بجائے اس کے کہ سماج کی روایتی زنجیریں توڑی جاتیں، الٹا یہ تجویز دے دی گئی کہ سلیکشن سسٹم کو کوٹہ سسٹم میں تبدیل کر دیا جائے، جس میں آدھی تعداد لڑکیوں کی ہو اور آدھی لڑکوں کی ہو۔ اگرچہ بعد میں اللہ اللہ کرکے وہ فیصلہ واپس لے لیا گیا، مگر یہ ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم مشکلوں میں اضافہ کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔
چلیں چھوڑے پرانی باتیں، آج ہی کا کوئی کیس سامنے رکھتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے کون واقف نہیں ہوگا۔ جب ان کے خلاف تحقیقاتی ریفرنس دائر کیا گیا تو ان کی اہلیہ کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ جسٹس عیسٰی سے اپنی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیلات پیش کرنے کا تقاضا تب جائز ہوتا جب اہلیہ معاشی طور پر جسٹس عیسٰی پر انحصار کرتیں۔ لیکن اس خودمختار خاتون پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہی نہیں، ہم سب نے حیرت کا اظہار کر دیا کہ وہ خود مختار کیسے ہوسکتی ہیں۔ اس خودمختار خاتون نے اپنی انفرادی معاشی حیثیت کے ثبوت میں ایک ایک کاغذ پیش نہیں کر دیا تب تک ہم نے اس کی جان بخشی نہیں کی۔
آخر میں ان پاکستانی خواتین شہریوں کا ذکر کروں گی جنہوں نے افغان مہاجرین سے شادیاں کیں اور پھر پشاور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرتی دیکھی گئیں کہ ان کے شوہروں کو ملک سے نہ نکالا جائے۔ پاکستان کے شہریت ایکٹ 1951 کے تحت پاکستان کی ہر عورت اپنے گھر کے کسی مرد فرد پر انحصار کرتی ہے۔ مطلب اس ملک میں کسی بھی عورت کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے اپنے باپ یا شوہر کی ضرورت ہے اور اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ براہ راست کسی بھی عورت کا پاکستانی ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے اسے کسی مرد کی نسبت سے آنا پڑے گا۔ شہریت ایکٹ 1951 کے تحت پاکستانی ریاست کسی بھی غیر ملکی خاتون کو شادی کے بعد شوہر کی شہریت حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن غیر ملکی مرد کو بیوی کی شہریت حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
سماجی، معاشی اور ریاستی خودمختاری ایک انسان کو روزمرہ کی زندگی میں وہ تمام ضروریات فراہم کرتی ہے کہ جو اس کا بنیادی حق ہے۔ لیکن یہاں تو ہماری ریاست اپنی آدھی آبادی کو تب تک پہچانتی ہی نہیں ہے جب تک وہ اپنے شوہر، بھائی یا والد کا نام نہ بتا دے۔