ریاض اور تہران کشیدگی ختم کریں: پاکستانی وزیر اعظم
8 جنوری 2016پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سعودی وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے جمعرات سات جنوری کو اسلام آباد میں پاکستانی وزیراعظم سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ ریاض حکومت نے گزشتہ ماہ ہی اپنی خارجہ پالیسی کو جارحانہ بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے اسلامی ممالک کے ایک ملٹری اتحاد کی تشکیل کی تجویز دی تھی۔
علاقائی سُنی قوت سعودی عرب نے کہا ہے کہ یہ اتحاد خفیہ معلومات کے تبادلے، پُر تشدد نظریات کے خلاف جنگ کرنے اور ضرورت پڑنے پر فوجی دستوں کی تعیناتی جیسے اہم اقدامات کرے گا۔ سعودی عرب پہلے ہی یمن میں ایران نواز باغیوں کے خلاف قائم اتحاد کی سربراہی کر رہا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ جمعرات کو ایک ایسے وقت پر پاکستان کے دورے پر پہنچے تھے جب دو علاقائی طاقتوں، ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چُکا ہے۔ عادل بن احمد الجبیر کا یہ دورہ جسے ایک ’ورکنگ وزٹ‘ کہا گیا محض چھ گھنٹوں سے کچھ زیادہ وقت پر محیط تھا۔ اس دورے میں اُن کے ساتھ ایک 17 رُکنی وفد بھی پاکستان آیا تھا۔
الجبیر کی طرف سے ایک فوجی اتحاد کی تشکیل سے متعلق تفصیلات سننے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا،’’ پاکستان سعودی پیشقدمی کا خیر مقدم کرتا ہے اور انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لیے تمام علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرتا ہے‘‘۔
پاکستان نے ابتدائی طور پر سعودی عرب کے اس فوجی اتحاد کی تشکیل کے اعلان پر نہایت محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے پہلے اس کی تفصیلات سامنے آنے کا انتظار کیا۔ اسلام آباد حکومت پہلے یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس اتحاد کی سرگرمیوں میں پاکستان کی شمولیت کس حد تک ہوگی۔
وزرات خارجہ کے مطابق وزیر اعظم نے سعودی عرب کو یقین دلایا ہے کہ پاکستانی عوام سعودی عرب کی خود مختاری اور سالمیت کو لاحق ہر قسم کے خطرات کے خلاف سعودی عوام کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے اُس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب بارہا ’بین الاقوامی دہشت گردی‘ کی مذمت کرتا رہا ہے جبکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران اُسے خود انتہا پسندوں کی طرف سے پُر تشدد حملوں میں غیر معمولی اضافے کا سامنا رہا ہے۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتا رہا ہے جو شیعہ اقلیت اور سکیورٹی فورسز کے اراکین پر ہوتے رہے ہیں۔
انتہا پسند اور بنیاد پرست نظریات کے حامل سُنی عالم محمد بن عبدالوھاب کی تعلیمات پر وجود میں آنے والی سعودی بادشاہت علاقائی اور عالمی سطح پر تشدد اور قدامت پرستی کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ عبدالوھاب کے نظریات کو سُنی انتہا پسندی کو فروغ دینے اور دنیا بھر میں بنیاد پرستی کے نام پر دہشت گردانہ حملوں میں اضافے کا سبب سمجھا جاتا ہے۔
عادل الجبیر نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں انہیں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کے بارے میں تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے تہران اور ریاض کے مابین پیدا ہونے والی موجودہ کشیدگی اور اختلافات کے پرامن حل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں یہ امتِ مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
مقامی میڈیا نے پاکستانی دفتر خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تنازعے کے سلسلے میں پاکستان عالمی روایات کا احترام کرتے ہوئے عدم مداخلت کے اصول کی پاسداری کرے گا۔
واضح رہے کہ شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سعودی عرب میں سزائے موت دیے جانے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔