ریفیوجی بحران: فرانس میں سات ملکی سمٹ
27 اگست 2017پیرس میں پناہ گزینوں کے بحران پر منعقدہ سربراہ اجلاس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، ہسپانوی وزیراعظم ماریانو راخوئے اور اٹلی کے قائدِ حکومت پاؤلو جینٹیلونی خاص طور پر نمایاں ہیں۔ اس سمٹ میں شمالی افریقی ملک لیبیا میں قائم اقوام متحدہ کی یونٹی حکومت کے وزیراعظم فائزالسراج کے ہمراہ وسطی افریقی ملک چاڈ کے سربراہ مملکت ادریس دیبی اور مغربی افریقی ملک نائجر کے صدر محمدُو عیسُوفو بھی شریک ہو رہے ہیں۔
مہاجرین کا بحران: اٹلی کو عالمی مدد کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ
افغان مہاجرین کی ایک اور کھیپ پاکستان سے وطن پہنچ گئی
پیرس ’ریفیوجیز آف رَیپ‘ کے لیے جنت سے کم نہیں
مہاجر بچی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے پر پاکستانی کو سزا
اس سات ملکی سمٹ میں خاص طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے افریقی ملکوں کے مہاجرین کی حوصلہ شکنی اور روک تھام کو موضوع بنایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سمٹ میں اٹلی کو تارکین وطن کی آمد سے جن معاشی و معاشرتی پیچیدگیوں کا سامنا ہے، اُن کے حل کے لیے بھی گفتگو یقینی ہے۔
لیبیا کی حکومت نے اپنی سمندری حدود میں غیر ملکی بحری جہازوں کو کسی بھی قسم کی سرگرمی میں شریک ہونے سے روک دیا ہے۔ اس متنازعہ فیصلے کا خاص طور پر اٹلی نے خیرمقدم کیا ہے۔ روم حکومت کے مطابق لیبیا کی سمندری حدود میں امدادی تنظیموں کے بحری جہاز بظاہر ناکارہ کشتیوں میں سفر کرنے والے افریقی مہاجرین کی مدد کے لیے تعینات کیے گئے تھے لیکن حقیقت میں وہ انسانی اسمگلنگ میں بھی ملوث پائے گئے تھے۔
طرابلس حکومت کے اس فیصلے سے اٹلی کی مسرت اس لیے بھی عیاں ہے کہ وہ لیبیا کی سمندری حدود میں اپنے جنگی بحری جہازوں کو تعینات کر کے انسانی اسمگلروں کی کشتیوں کو روکنے کی براہ راست نگرانی کرے گا۔ دوسری جانب کئی غیرسرکاری تنظیموں نے فائز السراج کی حکومت کے اس فیصلے کو سخت اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔
انٹرنینشل آرگنائزیشن برائے تارکین وطن کے مطابق رواں برس اب تک ایک لاکھ سے زائد پناہ گزین اٹلی کے ساحلی علاقوں پر قدم رکھ چکے ہیں۔ یہ تمام تارکین وطن لیبیا سے بحیرہ روم کا سفر کرتے ہوئے پہنچے ہیں۔