’’ریل سندھ میں چلی اور دھواں پنڈی سے نکلا‘‘
30 مارچ 2019ایک ہی شخص آصف علی زرداری کی متواتر کردارکُشی، سندھ میں پارٹی حکومت کی کارکردگی پر جائز و ناجائز تنقید، خود پارٹی کے اندر دوسری صف کی قیادت اور عہدیداروں میں چپقلش کے باوجود ہر چھوٹے بڑے شہر اور ریلوے اسٹیشنوں پر استقبالی ہجوم بلکل غیر متوقع تھے۔
بلاول بھٹو کا ٹرین مارچ، جس کا آغاز انہوں نے کراچی کینٹ اسٹیشن سے کیا، صرف ٹرین کا سفر ہی نہیں تھا۔ میرے سامنے ایک تاریخ کی فلم چلنے لگی تھی۔ کراچی، جہاں بدقسمتی سے بقول شخصے خود بلاول کی پارٹی لسانی خطوط پر منقسم ہے، وہاں ہر علاقے، کمیونٹی اور رنگ و نسل کے لوگ ٹرین اسٹیشنوں پر امڈ آئے تھے۔ کینٹ اسٹیشن کراچی پر کام کرنے والے لال رنگ کی وردیوں والے قلیوں کا جوش و خروش بہت سے لوگوں کے لیے قابل دید ہوگا۔ ’’بھٹو کے دشمن ہزار۔۔‘‘ کی تال پر رقص کرتے ہوئے ان جانفشاں لوگوں میں پی پی پی اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کی تاریخ ہے۔
کئی سال ہوئے کہ پی پی پی کے ماضی کے بانی لیڈر معراج محمد خان نے مجھے بتایا تھا کہ جب بھٹو ایوب خان کی حکومت سے الگ ہوئے تو انہوں نے ذاتی طور ان کو اور ان کے این ایس ایف کے ساتھی رشید حسن خان اور چند دیگر افراد کو دسمبر کی چھٹیوں میں ان کے شہر لاڑکانہ آنے اور ان کے گھر المرتضی میں رہنے کی دعوت دی تھی، ’’ہم اس سرد رات کراچی سے لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن دیر سے جس پلیٹ فارم پر اُترے، وہاں ہمیں لینے کے لیے خود ذوالفقار علی بھٹو موجود تھے۔ وہ پلیٹ فارم پر قلیوں کے ساتھ آگ پر ہاتھ تاپ رہے تھے اور ان کے ساتھ کچہری (مجلس) لگائے ہوئے تھے۔‘‘ یہ اور بات ہے کہ اقتدار میں آتے ہی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے انہی ابتدائی ساتھیوں کو مخالفت کرنے پر رگڑا لگایا۔ ریل اور قلیوں پر یاد آیا کہ ٹرین مارچ کی اصطلاح پاکستان کی تاریخ میں شاید ریلوے مزدوروں کی تحریک کے بانی مرزا ابراہیم نے شروع کی تھی۔ تب ’’جام کریں گے، جام کریں گے، ریل کا پہیہ جام کریں گے‘‘ جیسے نعرے کی بھی پاکستان کی سیاست میں بازگشت سنائی دی تھی۔
لیکن اچھی بات یہ ہے، جیسی ویسی ہی سہی، نام نہاد ہی سہی، گائیڈیڈ ہی سہی لیکن جہموریت کی ریل اپنی پٹری پر چل رہی ہے۔ اچھا لگا کہ شیخ رشید اور بلاول بھٹو کے درمیان لفظی لڑائی کے باوجود، شیخ رشید کی وزارت تلے پاکستان ریلویز نے بلاول بھٹو کو ایک سالم ٹرین بُک کرنے دی۔
تو پی پی پی نے سالم ٹرین بلاول کے لیے بُک کر دی۔ اس کے اخراجات کس نے ادا کیے؟ میرے اس سوال کا جواب پی پی پی والوں کے پاس یہ تھا کہ ’’ٹرین بُک کروانا کوئی اتنی بڑی بات نہیں، پارٹی کے منتخب نمائندوں اور متمول لوگوں نے ٹرین کے اخراجات برداشت کیے۔‘‘ اس ٹرین میں بلاول اور اس کی سکیورٹی کے لیے اسپیشل سیلون بنایا گیا۔ میرے دوست حضرت سیف بنوی کہا کرتے تھے کہ ’’کوئی ہمیں ادھار پر ٹرین بھی دے تو بابو سمیت خرید کریں گے۔‘‘ ٹرین پر بھٹو خاندان کے سفر اور ان کے تاریخی استقبالوں کی پوری تاریخ ہے۔ ایسے سفر ہر دور کی اسٹبلشمنٹوں کو بہت گراں بھی گزرے ہیں۔
ماضی میں وہ پاکستانی سیاسی پارٹیاں بھی ٹرین مارچ کا اعلان کرتی رہی ہیں، جن کی افرادی قوت بمشکل ایک سالم تانگہ ہوگی۔ لیکن یہاں سالم ٹرین تھی۔ کسی نے اسے ’’نیب ایکسپریس‘‘ کہا تو کسی نے ’’بلاول ایکسپریس‘‘۔
کینٹ سے بابو نے سیٹی بھر کر بجائی تو پھر کیا ڈرگ روڈ، کیا لانڈھی کیا ملیر۔ کراچی سے باہر پہلے اسٹیشن جنگ شاہی آتے آتے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جیل سے ضمانت پر رہائی ہو چکی تھی۔ لیکن بلاول کے استقبال کے دوران اسی اسٹیشن، جو کہ سندھی دانشور سیاستدان رسول بخش پلیجو کا آبائی گاؤں اور ان کی پارٹی خاص طور سندھیانی تحریک کا مرکز رہا ہے، میں بچے اور عورتیں جنگ شاہی کے علاقے میں پانی کی قلت پر بلاول بھٹو سے احتجاج کرنے کو آئے تھے۔
لیکن اس ٹرین مارچ کا جو مقصد تھا، وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سندھ میں کارکنوں اور لوگوں کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی پی ٹی آئی حکومت اور راولپنڈی یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بلکل واضح اور کھلا پیغام دینا تھا کہ کچھ بھی کر لو لیکن سندھ میں اب بھی پیپلزپارٹی مقبولیت اور عوامی طاقت رکھتی ہے۔ بقول پی پی پی جیالے شہزاد شفی کے کہ ’’ٹرین سندھ میں چل رہی ہے اور دھواں راولپنڈی سے اٹھ رہا ہے۔‘‘
وفاقی حکومت اور اداروں سے ٹکراؤ کی صورت میں سندھ اور پنجاب میں پوٹھوہار کے کارکن (جس کا اظہار اس خطے کے جیالوں نے بہت عرصے بعد آصف علی زرداری اور بلاول کی نیب کی پیشی پر بھی کیا) پی پی پی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سندھ میں ٹرین کی راستے بلاول کے استقبال اور اب تک عام لوگوں میں پی پی پی کی مقبولیت کے حوالے سے سب سے ’غیرجانبدار تبصرہ‘ سوشل میڈیا پر میرے دوست اور ماضی میں دائیں بازو کی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ڈاکٹر محمد علی محمدی کا تھا، ’’اس کا جواب کسی دیسی ارسطو کے پاس نہیں ہے کہ سندھ میں اب بھی پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک ہے۔ اس کا توڑ صرف یہ ہے کہ آپ ووٹ لینے کے بعد دوبارہ اپنے حلقے میں رہیں۔ چاہے جیتیں یا ہاریں ۔‘‘
لیکن پیپلز پارٹی یا بلاول کو، جو محبت سندھ کے لوگوں نے ریل کی پٹریوں اور پلیٹ فارموں کو گلاب کے پھولوں اور نیلگوں اجرکوں سے رنگین کر کے دی، اس کا جواب سندھ میں پی پی پی حکومت نے اپنے مطالبات کے حق میں پر امن احتجاج کرنے والے مرد و خواتین اساتذہ پر بدترین لاٹھی چارج کے ذریعے لہو لہان کر کے دیا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔