زرداری کا مولن کے نام ’خفیہ خط‘، پاکستان میں ہلچل
17 نومبر 2011پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں انکشاف کیا تھا کہ انہیں یہ خط واشنگٹن میں ایک اعلیٰ پاکستانی سفارتی اہلکار نے اس وقت کے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کے لیے کہا تھا۔ منصور اعجاز کے اس انکشاف کے بعد جہاں پاکستان کی فوجی اور سول قیادت میں تناؤ دیکھنے میں آیا، وہیں ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی گئیں کہ یہ اعلیٰ سفارتی اہکار واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی ہیں۔ اس کے بعد بظاہر اس معاملے کا مرکزی کردار بن جانے والے حسین حقانی کو حکومت پاکستان نے وطن بلا لیا ہے، جہاں وہ اس خط کی بابت پاکستانی قیادت کو اپنے مؤقف سے آگاہ کریں گے۔
جمعرات کے روز وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا، ’’قیادت کی سطح پر اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ ابھی اس حوالے سے کارروائی ہو رہی ہے۔ اس میں مختلف نقطہ نظر اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور مختلف شراکت داروں کو اس میں شامل کر کے حقائق جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
فردوس عاشق اعوان نے کہا، ’’اگر اس میں کوئی خامی پائی گئی اور اگر کسی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے، تو قیادت اس کا فیصلہ کرے گی اور آپ دیکھیں گے کہ قومی مفاد سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہمیں ایک فرد کے بجائے اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔‘‘
اس سے قبل حسین حقانی بطور سفیر مستعفی ہونے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں جس خفیہ خط کا ذکر ہو رہا ہے، وہ نہ تو انہوں نے تیار کیا اور نہ ہی انہوں نے اسے آگے پہنچایا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور پاکستان میں صدر زرداری کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے حسین حقانی کا منصب سفارت سے ہٹایا جانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ امریکہ میں مقیم تجزیہ نگار حسن عباس کا کہنا ہے، ’’اگر ان کو اس پوزیشن سے ہٹایا گیا یا استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تو امریکہ میں جو ان کی اہمیت ہے یا ان کی جو پوزیشن ہے، وہ مزید مستحکم ہو گی کیونکہ تاثر یہ ہے کہ شاید کسی خاص حلقے نے پاکستان میں ان کے خلاف یہ ایکشن کروایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے ادارے ان پر لگے اس الزام کو کس طرح ثابت کرتے ہیں اور اگر یہ ثابت ہو گیا تو ان (حسین حقانی) کی ساکھ پر یقیناً فرق پڑے گا۔‘‘
خیال رہے کہ اپریل 2008ء میں واشنگٹن میں پاکستانی سفیر تعینات ہونے کے بعد سے حسین حقانی کے پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو زیادہ بہتر نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی وجہ دائیں بازو کی جماعتوں اور عسکری حلقوں میں حسین حقانی کا امریکہ نواز شخصیت کے طور پر دیکھا جانا ہے اور یہاں تک کہ انہیں واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے میں امریکہ کا سفیر بھی کہا گیا۔ اس سے قبل حسین حقانی ‘پاکستان بِٹوین ملا اینڈ ملٹری’ نامی کتاب بھی لکھ چکے ہیں جس کو پاکستان کے عسکری حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔
تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ان کے صدر زرداری اور صدر کے قریب سمجھے جانے والے وزراء کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ اسی لیے جمعرات کے روز وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی حسین حقانی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایڈمرل مولن کے ترجمان کی طرف سے خط ملنے کی تصدیق کی گئی ہے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ یہ خط صدر زرداری نے لکھا تھا اور پاکستانی سفیر حقانی کے ذریعے بھجوایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر حسین حقانی نے استعفیٰ آفر کیا ہے، تو میں ان کو سراہوں گا کیونکہ یہاں پر جو گرما گرمی پیدا ہو گئی تھی، انہوں نے وسیع تر ملکی مفاد میں اپنا معاملہ لیڈر شپ کے حوالے کر دیا۔ لیکن اس کو اس چیز کے ساتھ نتھی نہیں کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا تو کیا واقعی صدر نے یا انہوں (حسین حقانی) نے خط لکھا ہوا تھا۔‘‘
رحمان ملک نے مزید کہا، ’’آج کل سائبر کرائمز کے ماہر آپ کو بتا سکتے ہیں کہ یہ خط کس نے لکھا اور کس نے دیا اور اگر ایسی کوئی بات تھی، تو کیا ان (حسین حقانی) کو ضرورت تھی کہ وہ اعجاز منصور کے پاس جائیں؟ کیا وہ خود سفیر نہیں؟ کیا وہ خود کسی کے پاس بھی خط لے کر نہیں جا سکتے تھے؟ یہ وہ تمام سوال ہیں، جن کے جواب حسین حقانی ہی دے سکتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی وکی لیکس کی طرف سے جاری کی گئی خفیہ سفارتی کیبلز میں بھی اس بات کا انکشاف ہو چکا ہے کہ پاکستانی سیاستدان اپنے مختلف مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے اسلام آباد میں امریکی سفیر سے ملاقاتیں کر کے مدد طلب کرتے رہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کے اس عمل سے جہاں ان کا امریکہ پر اعتقاد ظاہر ہوتا ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کافی زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں