زرداری کی طالبان کے خلاف پالیسی، ایک لاوارث میراث
12 جون 2013پاکستان کی قتل ہو جانے والی سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے مسلمان شدت پسندوں کو اپنا دشمن کہتے ہوئے کبھی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ دراصل وہ طالبان کو اپنا ’ذاتی دشمن‘ قرار دیتے ہیں۔ 2007ء میں راولپنڈی میں ایک عوامی ریلی کے دوران بے نظیر بھٹو کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس ہلاکت کا الزام طالبان پر ہی عائد کیا جاتا ہے۔
2008ء کے پارلیمانی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بڑی جماعت بن کر ابھری اور اس نے عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ جیسی لبرل جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کی تھی۔ اس مخلوط حکومت کا بنیادی مقصد طالبان کو شکست دینا تھا۔
تاہم ان تینوں جماعتوں کو طالبان کی مخالفت کی ایک بھاری قیمت چکانا پڑی۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کو شدت پسندوں نے نہ صرف بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا بلکہ دہشت گردی کے خلاف جاری غیر مقبول جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے پر ان جماعتوں کو گیارہ مئی کے انتخابات میں شکست کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔
حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پاکستانی عوام نے ان جماعتوں کے مقابلے میں قدامت پسند پاکستان مسلم لیگ نون اور عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے حق میں ووٹ ڈالے۔ یہاں تک کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں طالبان مخالف سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو ہزیمت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
آخری خطاب
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے اپنے آخری خطاب میں صدر زرداری نے واضح کیا کہ وہ انتہا پسندی یا طالبان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ خطاب ایسے وقت پر کیا، جب چند گھنٹے قبل ہی ایک قبائلی علاقے میں نیٹو سپلائی لے جانے والے ایک ٹرک پر کیے گئے حملے میں چھ افراد مارے گئے تھے۔
صدر آصف علی زرداری نے کہا، ’’قوم عسکریت پسندی کے خلاف متحد ہے۔ ہمیں ایک ایسی مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، جو اس خطرے کا مقابلہ کر سکے۔‘‘ زرداری کا مزید کہنا تھا کہ جو تشدد کا راستہ ترک کرتے ہیں، ان کے ساتھ امن مذاکرات ہونے چاہییں لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے، جو حکومتی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا نواز شریف صدر زرداری کے اس مشورے پر عمل کریں گے؟ کیا وہ پاکستان میں طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہوں کے خلاف جائیں گے یا ان کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے؟ اور یہ کہ آیا اہم صوبے خیبر پختونخوا میں ایک بڑی جماعت بن کر ابھرنے والی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان طالبان اور دہشت گردی سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے؟
یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں ہی صدر زرداری کے نقش قدم پر چلنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ یہ اسلام پسندوں کے ساتھ امن معاہدے کرنے کی خواہاں ہیں۔
مضبوط طالبان
پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن اور ڈویلپمنٹ ورکر مقصود احمد جان کو یقین ہے کہ عمران خان اور نواز شریف کی طرف سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر زور دینا، دراصل پاکستان میں انتہا پسندی کو مضبوط بنا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’نئے رہنماؤں نے طالبان کے ظلم و ستم سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ کچھ جماعتوں کا موقف ہے کہ طالبان ان کے بچے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انتہا پسند مزید بہادر ہو گئے ہیں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
مقصود احمد جان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون کو ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے، جو روزانہ بنیادوں پر مسلمان شدت پسندوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نئی حکومت کے دوران نہ صرف طالبان مزید مضبوط ہو جائیں گے بلکہ نواز شریف توانائی اور دیگر مسائل پر بھی قابو نہیں پا سکیں گے۔ ان کے بقول اس صورتحال میں شاید عوام آئندہ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو نجات دہندہ تصور کریں گے۔
غیر مقبول جنگ
مبصرین کے بقول اگرچہ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد اسلام کے نام پر عسکریت پسندی کے خلاف ہے اور وہ کٹر اسلامی جماعتوں کے مقابلے میں لبرل یا دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اعتدال پسند پارٹیوں کو فوقیت دیتی ہے تاہم وہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت طالبان کے خلاف جاری جنگ میں امریکا کی حمایت پر نظر ثانی کرے۔ وہ قیام امن چاہتے ہیں، بقول ان کے، چاہے اس کے لیے جنگجوؤں کو رعایت ہی کیوں نہ دی جائے۔
پشاور میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار فرید اللہ خان کے بقول خیبرپختونخوا میں بہت سے لوگ نیم خود مختار علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں کے خلاف ہیں۔ فرید اللہ مزید کہتے ہیں کہ لوگ اس صورتحال کی وجہ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو قرار دیتے ہیں، جن کی وجہ سے دائیں بازو کے گروہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پریشان کن صورتحال
پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی طرح عوامی نیشنل پارٹی کو بھی نظریاتی سطح پر ایک مخمصے کا سامنا ہے۔ نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اب امریکا بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور جنگجوؤں کے ساتھ امن قائم کرنے کا متمنی ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر ریاض احمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے سیاستدان جو شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے حامی ہیں، دراصل وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان مخالف سیاستدانوں پر حملوں میں اضافہ اس لیے ہوا ہے تاکہ انہیں ایک طرف دھکیلا جا سکے۔
دوسری طرف اسلام پسند پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت بنیاد پرست عناصر کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ پاکستانی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سابق رکن اسمبلی محمد شاہ آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا اور نیٹو طالبان سے بات چیت کر سکتے ہیں تو پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، ’’جنگ اس تنازعے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں (طالبان سے) بات کرنا ہو گی۔‘‘
صدر زرداری نے بھی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی امریکی کوشش کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ تاہم ناقدین کے بقول طالبان کو قائل کرنے کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ زرداری یا ان کی پارٹی ان کے ’دوست‘ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر لبرل پارٹیوں میں بہت سے سیاستدان ایسے ہیں، جو طالبان کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنی نظریاتی اساس کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ لیکن ناقدین اس بارے میں شکوک کا شکار ہیں کہ طالبان مخالف لوگ کب تک اپنے اس موقف پر قائم رہیں گے۔
S. Shams / G. Dominguez / ab / mm