1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زرداری کے دور صدارت کی تکمیل پر پارٹی بحران کا شکار

شادی خان سیف31 جولائی 2013

پاکستان میں آصف علی زرداری، جو اپنے پانچ سالہ دور صدارت کے دوران خاصے غیر مقبول صدر رہے، ایک ایسے وقت پر یہ منصب چھوڑ رہے ہیں جب ان کی پیپلز پارٹی بھنور میں گھری دکھائی دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/19HTP
تصویر: AP

پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی مقررہ مدت پوری کرنے والی حکومت کے دوران مخالفین کی تنقید کے باوجود آصف زرداری مقررہ مدت تک منصبء صدارت پر فائز رہے۔ انہیں البتہ یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان میں عمومی سیاسی رویوں کے برعکس کئی صدارتی اختیارات پارلیمان کو منتقل کیے۔ آصف زرداری نے منگل کے روز صدارتی انتخاب کے دوران خود کو دوبارہ امیدوار نامزد نہیں کیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اب صدر کا عہدہ بڑی ‌حد تک علامتی بن چکا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی بے یقینی کی گہرائیوں میں گھری نظر آ رہی ہے۔

زرداری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ستمبر 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو کئی بحرانوں سے نکالا۔ اس ضمن میں فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سیاسی امور میں عدم مداخلت کی پالیسی اور اپوزیشن کی جانب سے قبل از وقت انتخابات میں عدم دلچسپی بھی اہم عوامل تھے۔

Pakistan Asif Ali Zardari und Muhammat Nawaz Sharif
تصویر: Getty Images

’’پیپلز پارٹی کے لیے زرداری کے مشورے‘‘

پاکستانی دستور کے مطابق صدر مملکت کا عہدہ غیر سیاسی ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری گرچہ پیپلز پارٹی میں کسی باضابطہ کردار کے حامل نہیں تاہم یہ بات زبان زد عام ہے کہ وہی پس پردہ اہم ترین سیاسی محرک رہے ہیں۔ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی سابقہ مخلوط حکومت کے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کے بقول آصف زرداری عہدہء صدارت سے باقاعدہ طور پر رخصتی کے بعد پارٹی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ ’’دستور کے مطابق دو برس کی ممانعت کے سبب وہ عملی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے تاہم یہ بندش انہیں صلاح مشورے دینے سے نہیں روکتی۔‘‘

آصف زرداری عمومی طور پر عوام میں نہیں دیکھے جاتے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو لاحق خطرات اور دیگر وجوہات کے سبب زیادہ وقت بیرون ملک گزاریں گے۔ تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ آصف زرداری کی طویل غیر حاضری پیپلز پارٹی کو مزید کمزور کر سکتی ہے جو گزشتہ انتخابی شکست کے بعد خستہ اور منقسم دکھائی دے رہی ہے۔ ’’اگر وہ دبئی اور کراچی کے مابین مسلسل سفر کرتے رہے تو انہیں ایک ایسے مؤثر لیڈر کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا، جس کی پیپلز پارٹی کو اس وقت ضرورت ہے۔‘‘ عسکری کے بقول اس جماعت میں قیادت کا فقدان پایا جا رہا ہے۔

زرداری کے فرزند بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں تاہم کم عمری اور پاکستانی سیاست پر کمزور گرفت کے باعث انہیں اپنی مقتولہ والدہ بے نظیر بھٹو کی اس پارٹی کے ایک ’غیر آمادہ‘ لیڈر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بلاول کے کردار سے متعلق عسکری کہتے ہیں، ’’اگر زرداری پاکستان میں مستقل طور پر نہیں بستے تو وہ بلاول کی بھی کوئی معاونت نہیں کر سکتے۔‘‘ 26 جولائی 1955 کو سندھ کے ایک زمیندار گھرانے میں جنم لینے والے آصف زرداری نے بنیادی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اور لندن میں معاشیات کا مضمون بھی پڑھا مگر وہ کسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہیں ہیں۔

’’آصف زرداری کا سیاسی کیریئر‘‘

1987ء میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نامور بیٹی بےنظیر سے شادی کے وقت آصف زرداری کو بہت ہی کم لوگ جانتے تھے۔ وہ 1990ء میں بے نظیر کی پہلی حکومت کی برطرفی کے بعد تین برس تک جیل میں رہے۔ 1996ء میں ایک مرتبہ پھر بےنظیر حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری آٹھ برس جیل میں قید رہے۔ ان پر بدعنوانی، قتل اور اسمگلنگ کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ زرداری کے بقول ان پر لگے یہ الزامات سیاسی نوعیت کے تھے اور کبھی بھی ان کے خلاف جائز طریقے سے کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

Asif Ali Zardari
تصویر: pa / dpa

حالیہ پانچ سالہ دور صدارت میں بھی عدلیہ کی جانب سے 57 سالہ آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات کے تحت شدید دباؤ رہا اور ان کی پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا عہدہ بھی اسی کشمکش میں قربان ہوا۔ یہ الزامات 1990ء میں 12 ملین ڈالر غیر قانونی طور پر سوئٹزر لینڈ منتقل کرنے کی تحقیقات سے متعلق تھے۔ صدر مملکت ہونے کی بنیاد پر انہیں عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل تھا مگر یہ عہدہ چھوڑنے کے بعد وہ احتسابی عمل کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

سوئس حکام گزشتہ ماہ کہہ چکے ہیں کہ 2008ء میں آصف زرداری کے خلاف یہ الزامات واپس لیے جانے کے بعد کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ معاملہ اب دوبارہ نہیں اٹھا سکتے۔