1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زلزلے کے بعد ملبے تلے جنم لینے والی شامی بچی

10 فروری 2023

شام کے شمالی علاقے میں رواں ہفتے آنے والے قیامت خیز زلزلے کے بعد ملبے تلے جنم لینے والی بچی کو ’میریکل بے بی‘ کہا جا رہا ہے۔ یہ بچی یتیم ہو چُکی ہے۔

https://p.dw.com/p/4NLPf
Erdbeben Syrien - Baby überlebt unter Trümmern
تصویر: Anas Alkharboutli/dpa/picture alliance

 

ترکی کے ساتھ ساتھ جنگ سے تباہ حال ملک شام کے رہے سہے بنیادی ڈھانچے کو لرزا دینے والے حالیہ زلزلے نے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی برپا کی اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا وہاں متاثرہ علاقوں سے چند انتہائی انہونی اور ناقابل یقین کہانیاں موصول ہو رہی ہیں۔

'معجزہ بچی‘

شام کے شمالی علاقے میں زلزلے کے بعد ملبے تلے دبے انسانوں کی زندگی کی آخری کرن ڈھونڈنے والے امدادی کارکنوں کو ملبے کے نیچے سے ایک بچی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ کارکنوں نے بڑی مشکل سے ملبے کے نیچے اس بچی کو نکالنا چاہا تو پتا چلا کہ اُس کی ناف اس کی ماں کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی۔ بچی کی ناف کاٹ کر فوری طور پر سے اُسے ہسپتال منقل کیا گیا۔ امدادی کارکنوں نے ماں کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ اس دنیا سے جا چُکی تھی۔ بچی کا نام ہسپتال کے عملے نے ''آیا‘‘ رکھا ہے۔ اس 'معجزہ‘بے بی کو گود لینے کے لیے بہت سے افراد ہسپتال سے رجوع کر رہے ہیں تاہم جمعے کو طبی عملے نے بتایا کہ آیا نامی نوزائیدہ بچی انتہائی نگہداشت یونٹ میں ہے، اُس کا علاج ہو رہا ہے اور وہ صحتیاب ہو رہی ہے۔ بچی کی ایک تصویر سوشل میڈیا اور چند بین الاقوامی میڈیا ویب سائٹس پر شائع ہوئیں جس میں اُس کا ننھا سا زخمی جسم نظر آ رہا ہے اور ڈاکٹرز اُسے بنیادی غذائیت اور ضروری ادویات فراہم کر رہے ہیں۔

جنگ زدہ علاقوں میں روزانہ تین سو بچے مرتے ہیں، سیو دی چلڈرن

Erdbeben Syrien - Baby überlebt unter Trümmern
آیا نامی ’معجزہ‘بے بیتصویر: Anas Alkharboutli/dpa/picture alliance

 

آیا کے خاندان کا پس منظر

آیا کے والد اور ان کے چار بھائی بہن بھی زلزلے کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چُکے ہیں۔ یہ خاندان ترکی کی سرحد کے قریب ایک قصبے میں آباد تھا جسے زلزلے کے شدید جھٹکوں نے تباہ کر دیا۔ اس سے قبل آیا کا خاندان مشرقی شام میں دیرالزور صوبے میں رہتا تھا تاہم وہاں کے حالات خراب ہونے کے سبب وہ لوگ دیرالزور سے فرار ہو کر ترکی سے متصل شامی سرحدی علاقے میں آکر آباد ہوئے تھے۔

آیا کی دیکھ بھال کون کر رہا ہے؟

آیا جس ہسپتال میں داخل ہے وہاں آیا کی طبی دیکھ بھال کی نگرانی کرنے والے  ڈاکٹر اور ہسپتال کے مینیجر خالد عطیہ نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ وہ خود اس بچی کے تمام اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ مزید برآں اُن کی اہلیہ اس لاوارث بچی کو اپنا دودھ پلا رہی ہیں۔ ڈاکٹر خالد نے ڈی پی  اے کو بیان دیتے ہوئے کہا، ''میری بیوی خود چھوٹی آیا کو دودھ پلا رہی ہے۔‘‘ اس جوڑے کے ہاں چار ماہ پہلے ہی ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی تھی اور ان کا ایک تین سال کا بیٹا بھی ہے۔

​شامی بچوں کی ایک پوری نسل معذور

شامکے شمالی شہر عفرین کے الجہان ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر خالد عطیہ کا میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہنا تھا، ''میری اولین ترجیح  اس بچی کا ٹھیک ہونا ہے۔‘‘

ڈاکٹر نے آیا کی روز بروز صحت یابی پر اطمینان ظاہر کیا تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ابھی ہسپتال ہی میں رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی نے بھی آیا کو گود لینے کے سلسلے میں ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ ڈاکٹر خالد کے بقول، ''اب تک آیا کے دور پار کے رشتہ داروں کی طرف سے دعوے کیے گئے ہیں، لیکن ابھی کچھ بھی حتمی نہیں ہے۔ آیا کی 'کسڈی‘ یا اُسے پالنے کی ذمہ داری کسے سونپی جائے گی اس کا فیصلہ حکام کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

ک م / ر ب ( ڈی پی اے)