زندگی میں جگر کا عطیہ دینے کے رجحان میں فروغ کی مہم
13 مئی 2010میڈیکل سائنس کی اس سہولت کی بدولت کہ ’ لوگ اپنی زندگی کے دوران ہی جگر کا ایک حصہ عطیھ کر سکتے ہیں، جگر کے مرض میں مبتلا وہ مریض جو عطیات کے انتظار میں بڑی مشکل سے زندگی گزاررہے تھے اور عطیات دینے والوں کے مرنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ انھیں اب انتظار کے اس عذاب سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
ایشین ٹرانسپلانٹیشن سینٹر کےسربراہ ڈاکٹر ٹن کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا میں چھ سے سات فیصد آبادی ہیپاٹایٹس بی کی مرض میں مبتلا ہےِ۔ اور چین کے دریائے پرل کے ڈیلٹا اور شمالی ویتنام میں متاثرین کی شرح 12 فیصد تک ھوسکتی ہے۔ جبکہ 'ہیپاٹایٹس سی‘ جنوبی کوریا، جاپان، منگولیا اور روس میں بہت عام ہے جہاں آبادی کا 3 سے 4 فیصد اس سے متاثر ہے۔
ڈاکٹرٹن کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ یہ وسیع پیمانے پرپھیلی ھوئی ایک بیماری ہے، اس کے علاج کی سہولیات کی فراہمی کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیماری زیادہ تر غریب لوگوں میں پایی جاتی ہے۔ مختلف خاندانوں کی جانب سے مخالفت کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ اس بات کی وصیت نہیں کرسکتے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے اعضاء دوسرے ضرورت مند لوگوں کے کام آسکتے ہیںِ۔ مگرڈاکٹر ٹن کے مطابق اب جب لوگ اپنی زندگی میں یہ عطیہ دے سکتے ہیں تو انکی تعداد میں بھی اضافہ ھورہا ہے کیونکہ اس میں عطیہ دینے والے کے لئے خطرہ بہت کم ہے اور مزید یہ کہ انسانی جسم کے مختلف اعضاء کےمقابلے میں لیور ٹرانسپلانٹیشن سب سے کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔
انسانی جسم کے دوسرے اعضاء کے برعکس جگر میں خود کودوبارہ فعال بنانے کی صلاحیت زیادہ پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ایک صحت مند شخص سے لیا گیا اس کے جگر کا چھوٹا سا حصہ ہی کافی ہوتا ہے اور اسے لیکرمریض کو ٹرانسپلانٹ کردیا جاتا ہے۔ بہت سے ایشیائی ممالک ، مثال کے طور پر سنگاپور میں صرف رشتے داروں کو جگر کے یہ عطیات دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ پچھلے دوسالوں کے دوران سنگاپور علاج کے لئے آنے والے مریضوں کی تعداد میں بہت اضافہ ھوا ہے۔ اور ایک سال میں یہاں 35 سے 40 ٹرانسپلانٹیشن کئے جاتے ہیںِ۔
ڈاکٹر ٹن کے مطابق یہاں آنے والوں میں 95 فیصد دوسرے ملکوں سے آتے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد مڈل ایسٹ سے آنے والے مریضوں کی ہے جنہیں نائن الیون کے بعد ، یورپ اور امریکہ کا ویزہ بہت مشکل سے ملتا ہے۔ یہاں علاج کے لئے آنے والوں میں بہت غریب لوگ بھی شامل ہیں جو انڈونیشیا، سری لنکا اور ویتنام سے بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔
ڈاکٹرٹن کہتے ہیں کہ علاج کی اس سہولت کو سب کے لئے میسر کرنے کے لیے ضروری ہے اسے عام کیا جائے۔ ڈاکٹرٹن جو 90 کی دہائی میں لندن سے سنگاپور لوٹے تھے، کہتے ہیں کہ سب سے بڑا چیلنج عام لوگوں میں یہ آگاہی پیدا کرنا ہے کہ اب جگر کے عارضے میں مبتلا افراد کے لئے بھی امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کینسر کے ابتدائی مراحل میں ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے اس مرض سے نجات ملنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔
رپورٹ برشنا صابر
ادارت کشور مصطفیٰ