زیادہ گوشت خوری ماحول دشمنی نہیں
23 مارچ 2010اقوام متحدہ کی سن دو ہزار چھ میں عام ہونے والی ایک رپورٹ Livestock's Long Shadow میں واضح کیا گیا تھا کہ مال مویشی سبز مکانی گیسوں کے بڑے ذمہ دار ہیں۔ اِس مناسبت سے یہ بھی کہا گیا کہ گوشت خوری سے زیادہ کاربن فضا میں جا رہی جو کہ ماحول کو گرم ہونے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ اسی تناظر میں یہ نعرہ عام کیا گیا کہ کم گوشت کھانا اصل میں ماحول دوستی ہے۔
پاکستان میں تو ہفتے کے دو دن گوشت کا ناغہ بہت مشہور رہا ہے اور یورپ سمیت ترقی یافتہ ملکوں میں گوشت کے بغیر پیر کو بہت ہوا دی گئی۔ اسی طرح گزشتہ سال یورپ میں ایک مہم بھی چلائی گئی کہ کم گوشت ، توانائی کی بچت ہے۔ اِس نعرے کی حمایت میں بہت سارے بڑے ناموں میں ایک مشہور انگلش پوپ بینڈ دی بیٹلز کے پال میکارٹنی بھی پیش پیش تھے۔
تاہم ماحولیات کے ماہرین نے اقوام متحدہ کی پورٹ پر مزید چھان بین کرنے کے بعد بتایا ہے کہ کم گوشت خوری کسی طور بھی گلوبل وارمنگ کو کم کرنے میں مددگار نہیں ہے۔ اِن ماہرین نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ ماحول کو بگاڑنے کے دوسرے اسباب پر غور کریں اور اُن میں کمی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ امریکی کیمیکل سوسائٹی کی سالانہ کانفرنس میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ڈیوس کیمپس کے پروفیسر فرینک میٹلوہنر نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ دودھ اور گوشت کے استعمال کو سبز مکانی گیسوں کی افزائش سے نتھی کرنا درست نہیں ہے۔ پروفیسر فرینک نے اقوام متحدہ سمیت ایسی تمام رپورٹوں کے مندرجات کو چیلنج کرتے ہوئے انہیں رد کردیا ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہر کا مزید کہنا ہے کہ گوشت اور دودھ کی کم پیداوار کی مہم سے غریب ملکوں میں مزید بھوک پھیلے گی کیونکہ اُن ملکوں میں گائے، بھینسوں، بکریوں، اور ایسے دوسرے جانوروں کو پالنا عام دیہاتی معاملہ ہونے کے ساتھ ساتھ روزگار کا سبب بھی بنتا ہے۔ ماحولیاتی کیمسٹری کے ماہر پر وفیسر فرینک کا مزید کہنا ہے کہ کم گوشت کھانے کا نعرہ بلند کرنے والے جانوروں کے نظام انہضام اور خوراک کے پیداواری عمل سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ صرف امریکہ میں چھوٹی بڑی گاڑیوں کے دھوئیں سے چھبیس فی صد سبز مکانی گیسیں اوزون کی سطح کو خراب کرتی ہیں۔
رپورٹ : عابد حسین
ادارت : افسر اعوان