سائبر حملوں کی صورت میں عسکری کارروائی ممکن، پینٹا گون
17 نومبر 2011امریکی اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ رابرٹ کہلر نے بتایا ہے کہ امریکی افواج نے ممکنہ سائبر حملوں کی صورت میں اپنی تیاری مکمل کر لی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے کہلر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا، ’میرے خیال میں اس حوالے سے کسی کارروائی کے لیے ہمیں کسی نئی اتھارٹی کی ضرورت نہیں ہے‘۔
ایئر فورس کے جنرل رابرٹ کہلر کہتے ہیں کہ اگرچہ اس حوالے سے بنیادی فریم ورک تیار کر لیا گیا ہے تاہم فوجی ماہرین ابھی سائبر جنگ کے حوالے سے جزئیات طے کرنے کے عمل میں ہیں۔
اسٹریٹیجک کمانڈ خلا اور سائبر اسپیس میں امریکی آپریشنز کی ذمہ دار اتھارٹی ہے۔ مئی 2010ء میں اسی ادارے کا ایک ذیلی ادارہ یو ایس سائبر کمانڈ بنایا گیا تھا۔ یہ نیا ذیلی ادارہ سائبر حملوں کی صورت میں سفارتی، معلوماتی، فوجی اور اقتصادی حوالوں سے اپنا ردعمل ظاہر کرے گا۔ امریکی فوج کے بقول مستقبل میں سائبر جنگ دشمنوں کی ایک اہم حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
امریکی محکمہء دفاع نے ایک تازہ رپورٹ میں کھلے الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ سائبر حملوں کی صورت میں کی جانے والی عسکری کارروائی کے لیے امریکی فوج اپنے اہداف کا تعین کرنے میں مزید بہتری پیدا کر رہی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے امریکہ میں کمپیوٹرز پر حملوں کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان سائبر حملوں کے نتیجے میں امریکی کمپنیوں کو ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ کئی واقعات میں ہیکرز نے امریکی فوج اور محکمہء خزانہ کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ امریکی عسکری حکام ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ مستقبل میں ہیکرز صرف معلومات چوری ہی نہیں کریں گے بلکہ وہ اس سے امریکی دفاع، اقتصادیات اور شہری زندگی کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
آج کے جدید دور میں کمپوٹر ہر شعبے کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ اور نیٹ ورکنگ کی وجہ سے ہیکرز کے لیے خفیہ معلومات تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔ امریکہ کی طرف سے پہلی مرتبہ ایک واضح سائبر پالیسی سامنے آنے کے باوجود یہ سوالات ابھی تک جواب کے متلاشی ہیں کہ اگر عسکری کارروائی ناگزیر ہو جاتی ہے تو امریکی فوج سائبر حملہ آوروں کا تعین کیسے کرے گی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: حماد کیانی