سائنس کی دنیا میں خواتین کی خدمات
بہت سی خواتین نوجوان سائنسدانوں کی نت نئی ایجادات کے لیے وجہ تحریک ثابت ہوئیں۔ ماضی میں جنسی تعصب پر مبنی معاشرتی اقدار کے باوجود بہت سی خواتین قابل ذکر ایجادات کا سہرا اپنے سر باندھنے میں کامیاب ہوئیں۔
شاعر کی بیٹی کی ’نئی زبان‘
ایڈا لوَلیس سن اٹھارہ سو پچاس میں پیدا ہوئیں۔ وہ مشہور شاعر لارڈ بائرن کی بیٹی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ علوم ریاضی میں ملکہ رکھنے والی اس برطانوی خاتون نے سن اٹھارہ سو کے وسط میں پہلے کمپیوٹر پروگرام کے لیے ہدایات تحریر کیں۔ وہ ایسی پہلی شخصیت تھیں، جنہیں اس زمانے میں جب کمپیوٹر ایجاد بھی نہیں ہوا تھا، یہ احساس تھا کہ کمپیوٹر محض حساب کتاب تک محدود نہیں رہے گا۔
دو شعبوں کی ماہر
میری کیوری پہلی ایسی خاتون تھیں، جنہوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے ایسی پہلی شخصیت ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا، جنہوں نے دو مختلف شعبوں میں یہ معتبر انعام اپنے نام کیا۔ سن 1867 میں وارسا میں پیدا ہونے والی اس خاتون سائنسدان کو سن 1903 میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا جبکہ سن 1911 میں کیمسٹری کا۔ انہیں تابکاری کے شعبے میں تحقیق کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔
ڈی این اے کے دہری لچھے دار ساخت کا نظریہ
روزالِنڈ فرینکلِن کو اپنی ریسرچ پر نوبل انعام نہ ملا تاہم ناقدین کے مطابق وہ اس انعام کی مستحق تھیں۔ برطانوی بائیو فزیسٹ فرینکلن ماہر حیاتی طبیعات اور ایکس رے کرسٹل نگاری کی ماہر تھیں۔ ان کے عملی کام کے باعث جیمز واٹسن اور فرانسس کریک نے ڈی این اے کے دہری لچھے دار ساخت کا نظریہ پیش کیا۔ ان دونوں کو اس کام پر نوبل انعام بھی دیا گیا تاہم تب تک فرینکلِن بچہ دانی کے کینسر کے باعث انتقال کر چکی تھیں۔
انسولین پر تحقیق کی بانی
برطانوی کیمیا دان ڈوروتھی ہوجکن کو پروٹین کی کرسٹل گرافی کا طریقہ تخیلق کرنے پر سن 1964 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ انہوں نے روزا لینڈ فرینکلِن کے ساتھ مل کر بھی کام کیا۔ نوبل انعام جیتنے کے پانچ برس بعد ہوجکن ایسی شخصیت بن گئیں، جنہوں نے پہلی مرتبہ انسولین کی ساخت کا معمہ حل کیا۔
جزء آخر پر تحقیق
آسٹریلین امریکن ماہر حیاتیات الزبتھ بلیک برن کو جزء آخر (Telomeres ) پر تحقیق کرنے پر سن 2009 میں نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ کروموسومز کے آخری حصے پر موجود حفاظتی شیلڈ Telomeres کو اردو میں تکراری یا اجزائے آخر کہا جاتا ہے۔ بلیک برن نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ان اجزائے آخر کا خامرہ (انزائم) دریافت کیا تھا۔ اس تحقیق سے خلیات کو تقسیم کرنے میں مدد ملی اور یہ کیسنر کی ریسرچ میں بھی اہم ثابت ہوئی۔
بِن مانس کی زندگی پر تحقیق
برطانوی ماہر حیوانات رئیسہ جین گڈوِل کو چِمپانزیز پر ہونے والی تحقیق کا ماہر قرار دیا جاتا ہے۔ اس خاتون ماہر نے بِن مانسوں کے خاندان اور سماجی زندگی پر کئی عشروں تک ریسرچ کی۔ تنزانیہ کے گومبے اسٹریم نیشنل پارک میں انہوں نے ان جانوروں کی زندگی کے بارے میں کئی اہم معلومات کو نوٹ کیا اور کئی جانوروں کے نام بھی رکھے۔
عصبی ریشوں پر تحقیق
اطالوی ماہر عصبیات ریٹا لیوی مونٹالسینی سن 1909 میں پیدا ہوئیں۔ اٹلی میں مسولینی کی طرف سے یہودیوں کے تعلیمی شعبے پر کام کرنے پر پابندی کی وجہ سے ریٹا نے اپنے گھر میں ہی ایک لیبارٹری بنا لی اور مرغی کے ایمبریوز میں عصبی ریشوں پر تحقیق جاری رکھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد انہوں نے عصبی نشوونما کی حرکیات کو دریافت کیا۔ اسی باعث سن 1986 میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
سگنلز کی آواز میں منتقلی
شمالی آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی جوسلین بیل برن بُل نے خلا سے آنے والے ایسے سگنلز دریافت کیے، جن میں ایک باقاعدہ شرح سے کمی بیشی واقع ہوتی ہے۔ ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے دریافت کیے جانے والے ان سگنلز کو ’’لٹل گرین مین‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ کسی خلائی مخلوق کا پیغام نہیں بلکہ تیزی سے گھومتے ایک نیوٹرون اسٹار سے خارج ہونے والے سگنلز ہیں۔ انہیں سن 1974 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔