سابق عراقی نائب وزیر اعظم طارق عزیز کو سزائے موت کا حکم
26 اکتوبر 2010سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق ملک کی اعلیٰ ترین فوجداری عدالت کی طرف سے طارق عزیز کو یہ سزا ماضی میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے خلاف کی جانے والی خونریز کارروائیوں کے جرم میں سنائی گئی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق بغداد میں آج اس عدالت کی طرف سے سابق نائب وزیر اعظم طارق عزیز کے علاوہ صدام دور کی جن دو دیگر اہم شخصیات کو بھی موت کی سزا سنا دی گئی، ان میں سے ایک سابق وزیر داخلہ سعدون شاکر ہیں اور دوسرے آنجہانی صدام حسین کے ایک اور قریبی ساتھی عابد حمود۔
ان تینوں ملزمان کو یہ سزائیں عراقی شیعہ مسلمانوں کے خلاف ان خونریز کارروائیوں کے الزام میں سنائی گئی ہیں، جو 1982 میں صدام حسین پر ایک ناکام قاتلانہ حملے کے بعد شروع کی گئی تھیں۔ قریب 28 برس قبل صدام حسین پر یہ حملہ دجیل میں کیا گیا تھا، جو بغداد کے شمال میں واقع زیادہ تر شیعہ آبادی والا ایک شہر ہے۔
بغداد میں اس عراقی عدالت کے ایک ترجمان نے آج فیصلہ سنائے جانے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان تینوں ملزمان کو یہ سزائیں 80 کے عشرے میں شیعہ مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ان کے مجرمانہ کردار کی وجہ سے سنائی گئیں۔
اسی کے عشرے میں صدام دور کے عراق میں شیعہ سیاسی پارٹیوں کے خلاف کارروائیوں کے بعد 90 کے عشرے میں بھی عراق میں شیعہ آبادی کے خلاف ایک نیا اور زیادہ بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا تھا، جس کا سبب 1991 میں صدام حسین کی حکمرانی کے خلاف ایک ناکام مزاحمتی تحریک بنی تھی۔
خود صدام حسین کو بھی جو موت کی سزا سنائی گئی تھی، جس پر عملدرآمد 2006 میں ہوا تھا، اس کی وجوہات میں اس بڑے الزام کا ثابت ہو جانا بھی شامل تھا کہ دجیل میں اس عراقی ڈکٹیٹر کے گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد جو 140 سے زائد شیعہ شہری ہلاک کر دئے گئے تھے، وہ صدام حسین ہی کے حکم پر ہلاک کئے گئے تھے۔
یہ بات غیر واضح ہے کہ طارق عزیز اور ان کے دو ساتھی ملزمان کو موت کی جو سزائیں سنائی گئی ہیں، ان پر عمل درآمد کب ہو گا۔ عراق میں اس وقت مروجہ قوانین کے مطابق اگر کسی ملزم کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، تو اس پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں کیا جاتا جب تک کہ صدارتی کونسل بھی ایسے کسی مجرم کے لئے سزائے موت کی تصدیق نہ کر دے۔
طارق عزیز صدام حسین کے دور حکومت میں اس آنجہانی ڈکٹیٹر کے بہت قریبی سیاسی حلقوں میں شامل واحد مسیحی رہنما تھے۔ وہ صدام حسین کے ان چند معتمد ساتھیوں میں سے ایک ہیں جو ابھی تک زندہ ہیں۔ انہوں نے عراق پر امریکی قیادت میں فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد اپریل 2003 میں سقوط بغداد کے چند ہی روز بعد خود کو امریکی فوج کے حوالے کر دیا تھا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان