1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج

11 اگست 2009

چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے الزام میں سابق صدر جنرل پرویزمشرف کے خلاف مقدمہ منگل کے روز تھانہ سیکرٹریٹ میں درج کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/J7sm
صدر مشرف گزشتہ برس اگست میں اپنے عہدے سے علیٰحدہ ہو گئے تھےتصویر: picture-alliance/ dpa

پولیس حکام کے مطابق سابق صدر کے خلاف مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 344 اور34 کے تحت درج کیا گیا ہے، جو کہ قابل ضمانت جرم ہے اور قانون کے مطابق اس کی سزا تین سال ہے۔ جس درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں جنرل مشرف کو نامزد کرنے کے علاوہ دیگر افراد کا ذکر بھی کیا گیا ہے لیکن ان میں سے کسی کا نام نہیں لیا گیا، جس پر درخواست گزاراسلم گھمن ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پولیس جب ان سے بیان لے گی تو وہ اس وقت ان افراد کے نام بھی لیں گے، جنہوں نے ججوں کی غیر قانونی حراست میں جنرل مشرف کا ساتھ دیا۔

ایڈووکیٹ اسلم گھمن نے مقدمے کے اندراج پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنرل مشرف کے خلاف ابھی تک صرف حبس بے جا کے جرم میں مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن وہ ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ بھی کرائیں گے: ’’سیکشن 204 موجود ہے جس میں اگر سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے جج صاحبان کو روکا جا تاہے تو وہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے اور سیکشن204 کے تحت جنرل مشرف کے خلاف الگ سے کارروائی ہوگی۔ عدلیہ بھی اس پر سوموٹوایکشن لے سکتی ہے اورمیں بھی توہین عدالت پر مقدمہ دائر کرا سکتا ہوں۔‘‘

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سابق صدر نے ضمانت قبل از گرفتاری نہ کرائی تو انہیں وطن واپس پہنچنے پر فی الفور گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اگر عدالت کی طرف سے احکامات موصول ہوئے توپھر انٹرپول کے ذریعے بھی جنرل مشرف کی وطن واپسی اور گرفتاری کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

خیال رہے کہ مقدمہ اسلام آباد کی ایک سیشن عدالت کے حکم پر درج کیا گیا ہے اور لندن میں موجود جنرل مشرف یا ان کے قانونی مشیروں کی طرف سے ابھی تک اس حوالے سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں سابق صدر کے خلاف اسلام آباد کے ایک تھانے میں مقدمے کا اندراج قانونی لحاظ سے ایک ایسی قابل ذکر پیش رفت ہے، جس کی مدد سے کم از کم یہ تاثر زائل کرنے میں مدد ملے گی کہ پاکستان میں کسی بھی سابق فوجی حکمران کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاتی۔

تاہم اس کیس کی اصل حقیقت آئندہ ہفتوں میں محض اسی صورت واضح ہوسکے گی کہ آیا جنرل پرویز مشرف بذریعہ وکیل یا خود عدالت میں پیش ہو کر اپنا دفاع کرتے ہیں یا نہیں اور یہ کہ عدم پیروی کی صورت میں کیا حکومت اس مقدمے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کے اصرار پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ بھی دائر کرتی ہے یا نہیں۔

رپورٹ : امتیاز گل، اسلام آباد

ادارت : عاطف توقیر