1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد اور کراچی کے رہائشی

2 فروری 2022

عدالت عالیہ کے جج صاحبان ریٹائر ہونے کے بعد ورثہ ضرور چھوڑ کر جاتے ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کی تعیناتی جیسا قابل ستائش ورثہ چھوڑنے کے ساتھ ساتھ جسٹس (ریٹائرڈ) گلزار نے کراچی کے شہریوں کے لیے بھی ایک ترکہ چھوڑا ہے۔

https://p.dw.com/p/46Pzg
تصویر: privat

جسٹس (ریٹائرڈ) گلزار نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے پر خصوصی توجہ دی، جس میں نسلہ ٹاور کو منہدم کرنے کا فیصلہ، گجر اور اورنگی نالوں کے گرد تجاوزات کے خلاف آپریشن اور پویلین کلب میں موجود دکانوں کو مسمار کرنے کے احکامات شامل ہیں۔

پندرہ منزلہ عمارت نسلہ ٹاور کا ایک حصہ سروس روڈ کی سڑک پر قبضہ  کر کے تعمیر کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے پوری عمارت غیر قانونی قرار پائی تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اس عمارت کو مسمار کیا گیا۔ جسٹس (ریٹائرڈ) گلزار کے اس فیصلے کے خلاف شاہراہ فیصل پر قائم کردہ اس عمارت کے تقریبا چالیس خاندانوں نے کئی روز احتجاج کیا لیکن عدلیہ کے فیصلے کے بعد سب کچھ بے سود ثابت ہوا۔ اور   بلاخر ان کے سر سے چھت چھین لی گئی۔

اس فیصلے کے چند ماہ بعد پینسٹھ سالہ شمیم عثمان جوکہ نسلہ ٹاور کے ایک فلیٹ کی سابقہ مالک تھیں شدید ڈیپریشن کی وجہ سے اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ پی آئی اے کی ریٹائرڈ ملازمہ شمیم نے زندگی کی ساری جمع پونجی سے فلیٹ خریدا تھا لیکن عدالت عالیہ کا حکم ان کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوا۔

اسی طرح گجر نالے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن میں ڈائیبٹیز کی مریضہ ذکیہ بی بی کا گھر بھی مسمار کیا گیا تھا۔ وہ بھی جان کی بازی ہار گئیں۔ گجر اور اورنگی نالوں پرتعمیرکیے گئے کچھ گھر لیز بھی کیے جا چکے تھے۔

گرچہ عدالت نے نسلہ ٹاور کے بلڈر کو فلیٹ مالکان کی رقم تین ماہ میں واپس کرنے کا حکم دیا تھا اور سندھ حکومت کو نالوں پر رہنے والوں کے لیے معاوضے کا بھی حکم دیا تھا لیکن تاحال اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیا۔

گزشتہ برس دسمبر میں سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کی غیر قانونی تعمیر میں ملوث افسران کے خلاف ایکشن کا بھی حکم دیا تھا۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق ان میں سے کئی افسران نے قبل از گرفتاری ضمانت لی ہوئی ہے۔ 

سوال یہ اٹھتا ہے کہ نسلہ ٹاور کی زمین اور اورنگی اور گجر نالے کے کئی مکانات لیز تھے تو سب سے پہلا ایکشن کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھی مسلم کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے ان افسران کے خلاف کیوں نہیں لیا گیا، جنہوں نے ان زمینوں پر لیز الاٹ کی اور تعمیر کی اجازت دی؟

کیا نسلہ ٹاور کے فلیٹ مالکان اس جرم کے اصل ذمے دار تھے، جنہوں نے اپنی جمع پونجی سے رہنے کے لیے فلیٹ خریدا؟ یا پھر وہ افسران جنہوں نے غیر قانونی لیز کے کاغذات پر دستخط کیے؟ یا پھر وہ افسران جنہوں نے ان مکانات اور عمارتوں کی تعمیر کے وقت یہ جائزہ نہیں لیا کہ آیا وہ الاٹ کی گئی زمین پر بنایا جا رہا ہے یا اس سے تجاوز کیا جا رہا ہے؟

آخر ان مکانات اور عمارت کی غیر قانونی تعمیرات کے اصل ذمے دار کون تھے؟ قصور وار جو بھی تھے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے پر مرکوز مہم اس شہر کے باسیوں کے لیے موت کے پروانے اور بے گھر ہونے کے پیغام لے کر آئی۔

جسٹس (ریٹائرڈ) گلزار نے کورٹ میں کیسز کی سماعت کے دوران بارہا کہا کہ کراچی کو چالیس سالہ پرانے ماسٹر پلان پر واپس لانا چاہیے۔ انیس سو سینتالیس سے لے کر آج تک شہر قائد میں پناہ گزینوں، مہاجرین اور ملک کے دوسرے شہروں سے ہجرت کر کے کراچی میں بسنے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے آنے کے بعد کیا یہ ممکن تھا؟

کیا ہی اچھا ہوتا کہ جسٹس (ریٹائرڈ) گلزار جنہوں نے دسمبر دو ہزار انیس کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا تھا اپنی توجہ اس وقت کے بیالیس ہزار پینڈنگ کیسز کی طرف مرکوز رکھتے تاکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت ان کیسز کی تعداد ترپن ہزار دو سو نہ ہوتی؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔