سالمونیلا کے ذریعے کینسر کے خلاف جنگ
20 اپریل 2011جرمن شہر براؤن شوائیگ میں واقع جرمن تحقیقی ادارے ہیلم ہولٹس سینٹر فار انفیکشن ریسرچ کی ایک تحقیق کے مطابق سالمونیلا نامی ایک بیکٹیریا، جو عام طور پر شدید ترین فوڈ پوائزننگ کا سبب بنتا ہے، کینسر تھیراپی میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ادارے کی تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے:’ہم ڈیڑھ سو برس سے یہ بات جانتے ہیں کہ بیکٹیریا ٹیومر کے خلیوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘۔‘
واضح رہے کہ اب سے کچھ عرصے قبل تک محققین کینسر کے علاج کے لیے سالمونیلا کے استعمال کے دوران انفیکشن کے خطرے کو روکنے میں ناکام رہے تھے تاہم اب اس بیکٹیریا کی جینیاتی ساخت تبدیل کی جا سکتی ہے اور اس طرح سالمونیلا کو کینسر کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس جرمن ادارے کی آٹھ رکنی ٹیم گزشتہ چھ برسوں سے اس پروجیکٹ پر کام کر رہی تھی اور بالآخر اس کو اس تحقیق میں کامیابی کے کچھ آثار ملے ہیں۔ یہ محققین سالمونیلا بیکٹیریا کو آنتوں کے کینسر پر آزما رہے ہیں۔
سالمونیلا بیکٹریا ان ٹشوز میں پایا جاتا ہے، جن کو بہت کم خون اور آکسیجن مل پاتی ہے۔ محققین کے مطابق جسم کے نظامِ مدافعت میں خون کے ساتھ ایسے پیغامات چھوڑ دیے جاتے ہیں، جو کہ کینسر کی شکار شریانوں کی جھریوں کو کھول دیتے ہیں۔ اس کے بعد خون میں موجود سالمونیلا کینسر شدہ شریانوں میں داخل ہو جاتا ہے اور ٹیومر کو تباہ کرنے کا کام کرتا ہے۔ محققین کے مطابق لیباریٹری میں چوہوں پر کیے گئے تجربات کئی مرتبہ کامیاب رہے ہیں۔
ادارے کے مطابق وہ اب بیکٹیریا کو مزید طاقتور بنانے پر کام کر رہا ہے۔ محققین اس حوالے سے دیگر بیکٹریاؤں پر بھی کام کر رہے ہیں، جن کی مدد سے کینسر کے علاج کو ممکن بنایا جا سکے گا۔
اس پروجیکٹ کو جرمن کینسر ایڈ ادارے کی جانب سے قریباً ڈھائی لاکھ یوروز کی رقم مہیا کی گئی تھی۔
ادارے کے مطابق انسانوں پر اس تحقیق کے استعمال میں ابھی خاصا وقت درکار ہے اور کم از کم پانچ برسوں تک جانوروں پر ہی تجربات کیے جائیں گے۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کو کیمو تھیراپی کے ساتھ یا اس کے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم سرجری کے ذریعے ٹیومر کو نکالنے کی ضرورت مستقبل میں بھی پڑ سکتی ہے۔ سالمونیلا کو کینسر کی تشخیص کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی