’سالِ نو کی شب مصری مسیحیوں کے لئے قیامت‘
1 جنوری 2011مصری وزارتِ صحت کے مطابق 79 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ قاہرہ حکومت نے اِس حملے کا ذمہ دار ’غیر ملکی عناصر‘ کو ٹھہرایا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق نصف شب کے بیس منٹ بعد کیا جانے والا یہ حملہ ایک خود کُش کارروائی تھی، جس میں عالباً حملہ آور بھی مارا گیا۔ زخمیوں میں چرچ کے باہر پہرہ دینے والے چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ انسانی جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، کاریں تباہ ہو گئیں اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ ایک عینی شاہد نے بتایا، ’’مَیں ٹیلی فون کر رہا تھا اور اچانک میرے آس پاس انسانی جسم گرنے لگے، سب لوگ خون میں لت پت تھے، خود مَیں بھی دور جا گرا۔‘‘
اِس حملے کے فوراً بعد مسیحی باشندے احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکل آئے۔ کچھ جگہوں پر مسیحیوں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے پر پتھر بھی برسائے۔ ایک اور شخص نے اِس واقعے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’آخر کیوں؟ مَیں جاننا چاہتا ہوں، کیوں؟ یہ لوگ تو یہاں صرف عبادت کرنے کے لئے آئے تھے۔
79 ملین آبادی والے مصر میں مسیحی آبادی کی شرح تقریباً 10فیصد ہے۔ اِس سال ستمبر میں مجوزہ صدارتی انتخابات سے پہلے قاہرہ حکومت نے گرجا گھروں کے باہر حفاظتی انتظامات سخت کر دئے ہیں۔ نومبر میں عراق میں القاعدہ سے وابستہ ایک گروپ کی جانب سے مصر میں چرچ کے خلاف حملوں کی دھمکی کے بعد سے گرجا گھروں کے باہر کاریں پارک کرنا بھی ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ مصری حکام کے مطابق یہ دھماکہ وہاں تباہ ہونے والی کسی کار میں نہیں ہوا بلکہ بم غالباً خود کُش حملہ آور کے پاس تھا۔
پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم نے سالِ نو کے موقع پر اپنے خطاب میں مسیحیوں کے خلاف پُر تشدد کاررروائیوں کی مذمت کی ہے اور مذہبی آزادی اور رواداری کی اپیل کی ہے۔ پوپ کے مطابق وہ اکتوبر میں اطالوی شہر اسیسی میں عالمی مذہبی رہنماؤں کی ایک سربراہ کانفرنس کی میزبانی کریں گے، جس میں عالمی امن کے فروغ کے طریقوں پر بحث کی جائے گی۔
1981ء سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے 82 سالہ مصری سربراہِ مملکت حسنی مبارک نے ٹیلی وژن پر اپنے ایک خطاب میں یقین دلایا کہ دہشت گرد مصر کو غیر مستحکم کرنے یا مسلمان اور مسیحی آبادی کو تقسیم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
گزشتہ سال جنوری میں جنوبی مصر میں ایک چرچ کے باہر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے چھ مسیحیوں اور ایک مسلمان پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد ہنگامے شروع ہو گئے تھے۔
نومبر 2010ء میں ایک چرچ کی تعمیر روکے جانے کے فیصلے کے خلاف مسیحی آبادی کے سینکڑوں ارکان نے مظاہرے کئے۔ اِس موقع پر اُن کا پولیس اور مسلمانوں کے ساتھ تصادم بھی ہوا، جس میں دو مسیحی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ 150 کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اِس طرح کے مذہبی فسادات کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اُن قوانین کے بارے میں پائے جانے والے اعتراضات دور کرے، جن کے تحت ایک مسجد تعمیر کرنا ایک گرجا گھر تعمیر کرنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہے۔
مصر کے اعلیٰ ترین مذہبی ادارے الازہر کے ساتھ ساتھ بڑے اپوزیشن گروپ اخوان المسلمون نے بھی بیرونی عناصر کو اِس حملے کے لئے قصور وار قرار دیتے ہوئے اِس کی مذمت کی ہے۔ قطر، کویت اور شام نے بھی اِس حملے کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی اِسے ایک ’وحشیانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے اِس کی مذمت کی ہے۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف