سال دو ہزار پندرہ پاکستانی کھلاڑیوں پر مہربان رہا
31 دسمبر 2015کرکٹ
دو ہزار پندرہ میں پاکستانی ٹیسٹ ٹیم ناقابل شکست رہی تاہم ایک روزہ میچوں میں ناقابل اعتبار بیٹنگ اور پھر سے سر اٹھانے والی پلیئر پاور نے ان فتوحات کو گہنا دیا۔
سال کا سب سے یادگار لمحہ وہ تھا، جب تاریخی پالیکلے ٹیسٹ میں یونس خان اور شان مسعود نے طلسماتی سینچریاں بنا کر اسے تین سو ستتر کے ناقابل یقین ہدف تک رسائی دلائی۔ ٹیسٹ کرکٹ کی چوتھی اننگزمیں پاکستان کا یہ سب سے بڑا اور ایشیا میں دوسرا بڑا اسکور تھا۔
پاکستان نے سری لنکا کو نو سال بعد دو ایک سے ہرانے کے علاوہ بنگلہ دیش اور انگلینڈ کے دانت کھٹے کر کے عالمی رینکنگ میں دوہزار چھ کے بعد پہلی بار دوسرے نمبر پراپنا نام لکھوایا۔ یونس خان آٹھ میچوں میں سات سو نواسی رنز کے ساتھ پاکستان کے سب سے کامیاب بیٹسمین اور یاسر شاہ سات میچوں میں انچاس وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب باؤلر رہے۔
یونس نے انگلینڈ کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ میں جاوید میانداد کا پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ آٹھ ہزار آٹھ سو بتیس رنز کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔
ایک روزہ میچوں میں یہ سال بھی اپنے پیچھے پیٹنے کو ایک لکیر چھوڑے جا رہا ہے۔ ورلڈ کپ میں وہاب ریاض کا تیز ترین اسپیل بھی ایڈیلیڈ اوول کوارٹر فائنل میں گرین شرٹس کی توقعات کے شیش محل کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکا۔ اس کے تین ہفتے بعد ڈھاکہ میں میزبان بنگلہ دیش کے ہاتھوں پاکستان کو پہلی بار کلین سویپ کی سُبکی اٹھانا پڑی۔
نئے کپتان اظہر علی نے بعد ازاں سری لنکا اور زمبابوے کے خلاف پاکستان کو کامیابیاں دلوائیں لیکن انگلینڈ کے ہاتھوں خلیج میں ہوم سیریز کی شکست نے پھر پاکستانی بیٹنگ کو آئینہ دکھا دیا۔
اسی سال مصباح الحق اور شاہد آفریدی نے ون ڈے کرکٹ کو الوداع کہا۔ دونوں کی پیروی یونس خان نے بھی کی لیکن ون ڈے کھیلنے پر یونس کے پہلےغیر ضروری اصرار اور پھر اچانک ریٹائرمنٹ کے فیصلے نے پاکستان کرکٹ میں پھر سے پلیئر پاور کو ہوا دی۔
اسی سال اسپاٹ فکسنگ میں ملوث محمد عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف پرکرکٹ کھیلنے کی پابندی ہٹا لی گئی لیکن محمد حفیظ اور اظہرعلی کی جانب سے محمد عامر کی ٹیم میں واپسی کی کھلم کھلا مخالفت اور یاسر شاہ پر ممنوعہ د وا کا الزام پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے سال کا آخری بڑا صدمہ ٹھہرا۔
اس برس بھی پاک بھارت کرکٹ کی بحالی بھارتی کرکٹ بورڈ کی سیاست اور وعدوں کی نذر ہو گئی تاہم زمبابوے کی مئی میں لاہور آمد نے پاکستان پر بین الاقوامی کرکٹ کے بند دروازے کھول دیے۔
ہاکی میں سب سے بنجر سال
دو ہزار پندرہ ہاکی میں سب سے بنجر اور نامرادی کا سال ثابت ہوا۔ اس برس پاکستان کی ٹیم صرف ایک ٹورنامنٹ بیلجیئم میں ورلڈ ہاکی لیگ میں ہی شرکت کر سکی۔ ٹورنامنٹ کے پلے آف میں آئرلینڈ جیسی کمزور ٹیم سے شکست نے پاکستان کو پہلی بار اولمپکس سے باہر کر دیا۔ اس ناکامی پر ہاکی کو دیمک کی طرح چاٹنے والے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہد یدروں کو حکومت نے باہرکا راستہ دکھا دیا۔ اختررسول اور رانا مجاہد کی جگہ شہباز سینیئر اور بریگیڈیئر خالد کھوکھر پی ایچ ایف کے نئے نگہبان مقرر ہوئے۔ نئی ہاکی انتظامیہ نے چند سینیئر کھلاڑیوں کو شامل کر کے جونیئر ٹیم کو ایشیا کپ کھیلنے ملائیشیا کے شہر کوانتن بھیجا، جہاں ٹیم فائنل میں بھارت سے چھ دو سے ہار گئی۔ البتہ اس نے اگلے برس ہونے والے جونیئر عالمی کپ کے لیے ضرور کوالیفائی کر لیا ہے۔
ڈیوس کپ ٹینس میں نوسال بعد کامیابی
ٹینس میں دو ہزار پندرہ پاکستان کے لیے بڑی کامیابی کا نقیب ثابت ہوا۔ پاکستان میں رواں برس بھی انٹرنیشنل ٹینس تو نہ لوٹ سکی البتہ ستمبر میں اعصام الحق اور عقیل خان کی اعلیٰ کارکردگی نے ترکی میں پاکستان کو چائنیز تائیپے کے خلاف کامیابی دلا کر نو سال بعد ڈیوس کپ کے گروپ ون میں پہنچا دیا۔ ایشیا اوشینیا گروپ ٹو کے اس فائنل کا سکور تین دو رہا۔ اس سے پہلے پاکستان نے کویت اور انڈونیشیا کو بھی شکست دی۔ ومبلڈن میں اعصمام کے زخمی ہونے پر عابد علی اور سامر افتخار نے ڈیوس کپ میں پاکستان کو ان کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
اسنوکر میں حمزہ کا سال
اپریل میں کوالالمپور میں پاکستان کےحمزہ اکبر نے سابق عالمی چمپیئن بھارت کے پنکج ایڈوانی کو فائنل میں سات چھ سے ہرا کر ایشیائی چمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ اسنوکر میں سترہ سال بعد یہ ٹائٹل پاکستان کو ملا ہے۔ اکیس سالہ حمزہ اکبر اس کامیابی کے بعد پاکستان کے پہلے پیشہ ور کیوسٹ بھی بن گئے ہیں۔
فٹ بال کو ٹھوکریں
فیفا کی طرح پاکستان میں فٹ بال فیڈریشن کے عہدیداروں پر بھی یہ سال قہر بن کر ٹوٹا۔ بارہ سال تک پی ایف ایف کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے کے بعد بھی سید فیصل صالح حیات کا فٹ بال سے دل نہیں بھرا اور جون میں عدالتی فیصلے کے برعکس نام نہاد انتخابات کر کے پھر فیڈریشن کے صدر بن بیٹھے۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کو کالعدم قرار دے کر شفاف انتخابات کرانے کی ذمہ داری اور فٹ بال فیڈریشن کی انتظامی باگ ڈور اسد منیر کو سونپ دی۔ دوسری طرف حکومت کی آشیر باد سے فیصل صالح حیات کے مخالف گروپ نے فیڈریشن کے دفتر کو قبضہ کر لیا۔ اقتدار کی اس چھینا جھپٹی میں پاکستان فٹ بال ٹیم ساف چمپیئن شپ میں شرکت سے محروم رہی۔ البتہ چمن سے تعلق رکھنے والے کلیم اللہ کسی امریکی کلب سیکریمنٹو ریپبلک سے معاہدہ کرنے والے پہلے پاکستانی فٹبالر بن گئے۔
سکواش کی پاک سرزمین واپسی
سکواش میں سوائے پاکستان نمبر ایک ناصر اقبال کے پریزیڈنٹ انٹرنیشنل گولڈ کپ جیتنے کے، یہ پاکستان کے لیے ایک مشکل سال تھا۔ عامر اطلس خان حکام کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر امریکہ سدھار گئے جبکہ سرکردہ کھلاڑیوں نے تربیتی کیمپ میں شرکت سےانکار کر دیا۔ کویت میں پاکستان کو ایشین سکواش ٹائٹل کے دفاع میں بھی ناکامی کا سامنا رہا البتہ ملک میں انٹرنیشل سکواش کی واپسی اچھا شگون ہے۔
پاکستانی خواتین سرخرو
پاکستان کی خاتون سکواش کھلاڑی ماریہ طور نے رواں برس دو انٹرنیشل ٹائٹل جیتے۔ انہوں نے ستمبر میں نیش کپ جیتنے سے پہلے اپریل میں بحریہ انٹرنیشل ٹرافی بھی اپنے نام کی۔ پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم نے اس سال بارہ انٹرنیشل میچوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ ان میں جنوبی افریقہ کے خلاف خلیج میں ستاون رنز کی فتح قابل ذکرتھی۔ ویمن ٹیم نے بنگلہ دیش کو ہوم سیریز میں وائٹ واش کیا۔ بسمے معروف ون ڈے میں تین سو چوالیس اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی میں تین سو پچپن رنز بنا کر سب سے کامیاب بیٹر ثابت ہوئیں۔