سانحہ مینار پاکستان: کوئی ملزم گرفتار نہیں ہو سکا
18 اگست 2021مینار پاکستان کے سائے تلے خاتون عائشہ اکرم کو سینکڑوں اوباش نوجوانوں نے دست درازی اور ہراساں کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور کپڑے پھاڑ دئیے تھے۔ مینار پاکستان وہ جگہ ہے جہاں برصغیر کے مسلمانوں نے تئیس مارچ سن 1940 کو اپنے لئے الگ وطن کے حصول کی قرارداد منظور کی تھی۔
آئین میں خواتین کے حقوق کیا ہیں؟
متاثرہ خاتون کا بیان
اس واقعے کے بعد متاثرہ خاتوں نے میڈیا کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ابتدائی طور پر اقبال پارک میں موجود کچھ نوجوانوں نے میرے ساتھ سیلفی بنانے کی کو شش کی، بعد ازاں وہاں ہجوم بڑھتا گیا پھر اسے دھکے دے کر پارک کے جنگلے کے پاس دھکیل دیا گیا۔ اس دوران اسے دھکوں کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اوربعض لوگ اس کو فضا میں اچھال اچھال کر کھیلتے رہے۔ اس کے کپڑے پھٹ گئے۔ کچھ لوگ مجھے چھڑانے کی آڑ میں بھی میرے جسم کو چھوتے رہے۔ میرے جسم پر جگہ جگہ زخموں کے نشانات ہیں۔ '' ہم نے بار بار پولیس سے رابطہ کیا لیکن ہماری کوئی مدد نہیں کی گئی۔ میرے ساتھیوں نے مجھے پانی کے تالاب میں کود جانے کا مشورہ بھی دیا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس وقت میرا جی چاہا کہ میں اپنی زندگی ختم کرلوں‘‘
عائشہ اکرم کہتی ہیں کہ میں نے کوئی فحش لباس نہیں پہنا ہوا تھا اور نہ ہی میں نامناسب ویڈیو بناتی ہوں۔ میں نے یوم آزادی پر نیا جوڑہ سلوایا تھا لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنے خوبصورت لباس کو اچھی طرح دیکھ پاتی اس لباس کو تار تار کر دیا گیا۔ عائشہ کہتی ہیں کہ حکومت ایسے اقدامات کرے تا کہ گریٹراقبال پارک جیسی جگہوں پر صرف فیملیز کو آنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی وطن میں تنہا بیویوں کا المیہ
نقدی اور موبائل بھی چھین لئے گئے
اس واقعے کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لاہور کے لاری اڈا پولیس اسٹیشن میں متاثرہ خاتون کی مدعیت میں ایک ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354 اے (عورت پر حملے یا مجرمانہ طریقے سے طاقت کا استعمال اور کپڑے پھاڑنا)، 382 (قتل کی تیاری کے ساتھ چوری کرنا، لوٹ کی نیت سے نقصان پہنچانا)، 147 (فسادات) اور 149 کے تحت درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں عائشہ اکرم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مینار پاکستان کے قریب ویڈیو بنا رہی تھیں کہ 300 سے 400 لوگوں نے ان سب پر حملہ کر دیا۔ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، دست درازی کی اور ان کے کپڑے پھاڑ دئیے گئے۔ شکایت کنندہ نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ اس دوران ان کی انگوٹھی اور کان کی بالیاں بھی زبردستی چھین لے لی گئیں جبکہ ان کے ساتھی کا موبائل فون، شناختی کارڈ اور 15 ہزار روپے بھی چھینے گئے۔
تفتیش کس مرحلے میں ہے؟
تھانہ لاری اڈہ پولیس کے حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ سب انسپکٹر رمضان کو اس کیس کی تفتیش کے لئے کہا گیا ہے۔ ادھر ایس پی سٹی کے دفتر رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ زیادہ تر پولیس حکام اس وقت محرم ڈیوٹی پر ہیں۔ ایس پی سٹی کے دفتر میں موجود اہلکاروں کے مطابق تصاویر ویڈیو سے الگ کر کے نادرا کو بھجوائی جائیں گے اس طرح ملزموں کی شناخت ہونے پر ہی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو سکے گا۔
پاکستانی نژاد برطانوی خاتون کے قتل کا الزام، دو افراد کے خلاف مقدمہ
’’دہشت گردی کی دفعات لگائی جائیں‘‘
عورت فاونڈیشن پاکستان کی ڈائریکٹر پروگرامز ممتاز مغل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ واقعہ ملک بھر کی خواتین میں موجود عدم تحفظ کے احساس میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ عورتوں پر گھریلو تشدد کے واقعات تو سامنے آتے رہتے ہیں، لیکن اس واقعے سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اب پبلک مقامات بھی عورتوں کے لئے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ ان کی رائے میں عائشہ پر بھیانک حملہ کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔
سوشل میڈیا صارفین کی رائے
یہ واقعہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین گوگل کی مدد سے متاثرہ لڑکی پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر توصیف نامی ایک صارف نے اپنے ایک سوشل میڈیا بیان میں کہا کہ ''آپ سب افغانستان کی خواتین کی فکر چھوڑیں اور یہ سوچیں یہاں کس قسم کی جنگلی اور وحشی نسل پروان چڑھ رہی ہے، جو جہاں اکیلی کمزور لڑکی نظر آ جائے یہ اس پر پل پڑتے ہیں۔ ‘‘
نعمان نامی ایک صارف نے لکھا کہ پاکستان عورتوں کے لئے محفوظ نہیں رہا ہے میں اپنی بہنوں کے اکیلے باہر جانے سے ڈرتا ہوں اور خود ان کے ساتھ جاتا ہوں۔
مرد اور عورت کے حقوق کی جنگ کب تک؟
یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب کچھ ہفتے پہلے بھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں چھ افراد کو اسلام آباد میں ایک جوڑے کو ہراساں کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا، ان افراد نے جوڑے کو اسلحے کے زور پر کپڑے اتارنے کے لیے مجبور کرتے ہوئے تشدد کیا اور نازیبا حرکات کے ذریعے جوڑے کی زبانی اور جسمانی تضحیک کی تھی۔