1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولپاکستان

ساٹھ فیصد توانائی ماحول دوست، پاکستان اپنے ہدف سے کافی دور

20 اکتوبر 2024

پاکستان نے ماضی میں اپنے لیے وژن 2030 کے عنوان سے ماحول دوست ذرائع سے بجلی کی پیداوار کے شعبے میں جو اہداف مقرر کیے تھے، ان کا حصول اب تک کافی مشکل نظر آتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4lyIT
پاکستان میں سولر انرجی کے لیے استعمال ہونے والے سولر پینلز
پاکستان میں شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کا رجحان گزشتہ برسوں میں کافی زیادہ ہو چکا ہےتصویر: Manaf Sadique/DW

پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی اور ترقی نے دیرپا اور ماحول دوست بنیادوں پر ترقی کو یقینی بنانے کے لیے وژن 2030 کے عنوان سے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار اور توانائی کے شعبے میں بھی قومی سطح پر اہم اہداف مقرر کیے تھے۔ یہ اہداف اس نیشنل الیکٹرسٹی پالیسی کا حصہ تھے، جس کا اعلان 2021ء میں کیا گیا تھا۔

پاکستان حکومت کا بجلی بنانے والی کمپنیوں سے قبل از وقت معاہدے ختم کرنے کا اعلان

ان اہداف میں سے اہم ترین یہ تھا کہ 2030ء کے آخر تک ملک میں گرین انرجی کی پیداوار بڑھا کر مجموعی پیداوار کے 60 فیصد تک کر دی جائے گی۔ ایک دوسرا ہدف یہ بھی تھا کہ ماحول کے لیے نقصان دہ معدنی ایندھن پر انحصار مرحلہ وار اتنا کم کیا جائے اور ٹرانسپورٹ کو اتنا ماحول دوست بنایا جائے کہ تیس کی دہائی کے پہلے سال کے آخر تک پاکستان میں 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک ہوں۔

پچھلے سال تک کی پیش رفت

وژن 2030 کے لیے مقررہ مدت پوری ہونے میں اب چھ سال سے کچھ ہی زیادہ وقت باقی بچا ہے۔ لیکن پاکستان صاف اور ماحول دوست توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے ابھی تک اپنے ہدف سے اتنا دور ہے کہ 60 فیصد تک گرین انرجی کا ٹارگٹ بروقت حاصل کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔

'2030ء تک پاکستان میں بکنے والی نئی کاروں میں سے نصف الیکٹرک'

پاکستان میں بجلی کی آئندہ پیداوار کا زیادہ تر حصہ ماحول دوست اور قابل تجدید ذرائع سے حاصل کیا جائے گا، اس منصوبے کے لیے توانائی کی وفاقی وزارت جو اصطلاح بار بار استعمال کرتی رہی ہے، وہ اے آر ای (ARE)  ہے، یعنی متبادل قابل تجدید توانائی۔ گزشتہ برس کے تقریباﹰ وسط تک یہ ہدف کس حد تک حاصل کر لیا گیا تھا، اس بارے میں اُس وقت کے توانائی کے وفاقی وزیر خرم دستگیر نے بیرون ملک ایک بیان بھی دیا تھا۔

اسلام آباد میں ایک عمارت کی بیرونی دیوار پر نصب بہت سے ایئر کنڈیشنر
پاکستان میں موسم گرما میں بجلی کی طلب میں بہت زیادہ اضافے کے باعث پاور لوڈ شیڈنگ شروع ہو جاتی ہےتصویر: Saadeqa Khan/DW

خرم دستگیر خان نے مئی 2023ء میں بنکاک میں فیوچر انرجی ایشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تب تک پاکستان میں مختلف ذرائع سے ماحول دوست توانائی یا 'کلین انرجی‘ کی پیداوار مجموعی پیداوار کے چھ فیصد سے زائد ہو چکی تھی۔ لیکن کیا 'کلین انرجی‘ کی گزشتہ برس مئی تک کی چھ فیصد شرح کو 2030ء کے آخر تک دس گنا اضافے کے ساتھ 60 فیصد تک بڑھایا جا سکے گا؟ اس بارے میں تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کی عدم دستیابی کے باعث ڈی ڈبلیو نے سیاسی اور سماجی شعبوں کی چند شخصیات کے ساتھ گفتگو کی۔

 ہدف 'شروع سے ہی غیر حقیقت پسندانہ‘

کیا وژن 2030 کے تحت 60 فیصد تک گرین پاور اب بھی ایک حقیقت پسندانہ ہدف ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور پاکستانی سینیٹ کے رکن فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 2030ء کے آخر تک 60 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف تو ''شروع سے ہی غیر حقیقت پسندانہ‘‘ تھا۔

پاکستان میں چینی بجلی گھر تھر کا کوئلہ استعمال کریں، وفاقی وزیر

انہوں نے کہا، ''اس وقت بھی ٹھوس دلائل کے ساتھ ان منصوبوں اور دعووں پر تنقید کی گئی تھی اور انہیں سیاسی پروپیگنڈا قرار دیا گیا تھا۔ تب یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ پاکستانی سمندری حدود میں تیل کا اتنا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے کہ ملک کے توانائی کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور دیگر ممالک سے لوگ روزگار کے لیے پاکستان آئیں گے۔ یہ اعلان کسی عام سرکاری ملازم یا سیاسی کارکن نے نہیں بلکہ ملکی وزیر اعظم نے کیا تھا۔‘‘

سینیٹر فرحت اللہ بابر کے بقول پاکستانی پاور سیکٹر کا بڑا مسئلہ ٹرانسمشن ہے، ''اگر آپ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی بھی پیدا کریں اور ٹرانسمشن کی صلاحیت صرف بیس ہزار میگا واٹ ہو، تو زیادہ پیداوار بھی لاحاصل ہی ہو گی۔‘‘

پاکستان میں صارفین کو بجلی کی ترسیل کے نظام کی حالت
پاکستان میں صارفین کو بجلی کی ترسیل کا نظام بہت پرانا ہو چکا ہے اور جدیدیت کا متقاضی ہےتصویر: Ismat Jabeen/DW

ترقی پذیر ممالک کی صف میں اس وقت پاکستان کہاں ہے؟

شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر نظر رکھنے والی صحافی عافیہ سلام نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ صاف اور ماحول دوست توانائی کی پیداوار کا موجودہ قومی ہدف اگلے چھ برسوں میں حاصل کر لینا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔

ان کے بقول یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ترقی پذیر ممالک کی صف میں اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ اس کے علاوہ ''قدرتی آفات، ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات، مالیاتی بحران اور اقتصادی مشکلات، ان سب کے باعث وہ وسائل کبھی پورے دستیاب ہی نہیں ہوتے، جن کے ساتھ ایسے اہداف کے حصول کے لیے آگے بڑھا جا سکے۔‘‘

پاکستان میں سولر پینلز کی قیمتیں تاریخی حد تک کم ہو گئیں

عافیہ سلام نے بتایا کہ پاکستان میں پن بجلی کو بھی قابل تجدید ذرائع سے توانائی کی کیٹیگری میں شمار کیا جاتا ہے، جو اس لیے اہم ہے کہ ہائیڈل پاور کے طور پر کافی زیادہ بجلی تو پہلے ہی بہت سے ڈیموں اور ان پر بنائے گئے بجلی گھروں سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ان کے بقول اب بڑے بڑے ڈیموں کا زمانہ گزر چکا ہے، ''اب تو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے کہ دریاؤں میں پانی کی مقدار کب اور کتنی کم یا زیادہ ہو جائے گی۔‘‘

پاکستان میں بجلی کا بحران، ہنرمند بیروزگار ہونے لگے

گرین انرجی کے لیے دیگر امکانات

عافیہ سلام کے مطابق پاکستان جن ماحول دوست اور قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ کر سکتا ہے، وہ شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے ہیں، جن کے لیے امکانات وسیع تر ہیں۔ ''سولر انرجی اور ونڈ انرجی کے لیے جدید لیکن سستی ٹیکنالوجی مقامی سطح پر تیار کر کے اسے ترویج دی جائے، تو پاکستان کے توانائی کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پہلے تو پاور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پاکستانی سڑکوں پر 30 فیصد گاڑیوں کا الیکٹرک ہونا تو بعد کی بات ہو گی۔‘‘

نئے جوہری بجلی گھر کی تعمیر، پاکستان اور چین کے مابین معاہدہ طے پا گیا

بجلی کے بلوں میں بہت زیادہ اضافے سے تنگ آ کر اپنے گھر پر سولر پینلز لگوانے والی اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کی رہائشی فاطمہ نسیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں دھوپ کی کوئی کمی تو نہیں۔ بہت سے شہری علاقوں میں سولر انرجی اب باقاعدہ رجحان بن چکی ہے۔ مجھے اپنے ارد گرد کے ماحول میں کوئی ایسا مکان دکھائی نہیں دیتا، جہاں سولر پینلز نہ لگے ہوں۔ دیہی علاقوں میں اب تک کی صورتحال مختلف ہے۔ لیکن وہاں بھی شمسی توانائی کو رواج دینے کے ساتھ ساتھ ونڈ فارمز قائم کر کے بےتحاشا بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔‘‘

پاکستان میں توانائی کا بحران، کیا حل سولر سسٹم ہو سکتا ہے؟