سب سے بڑے بم حملے کے بعد قومی سلامتی کے امریکی مشیر کابل میں
16 اپریل 2017افغان دارالحکومت کابل سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر میکماسٹر آج اتوار سولہ اپریل کے روز کابل پہنچ گئے۔ ان کا صدر ٹرمپ کے مندوب کے طور پر ہندو کش کی اس ریاست کا یہ اولین دورہ ہے۔
اس حوالے سے جنرل میکماسٹر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ وہ کابل میں افغان حکومتی نمائندوں کے ساتھ ’’باہمی تعاون کے موضوع پر انتہائی اہم مذاکرات‘‘ کرنے والے ہیں۔
’تمام بموں کی ماں‘: ننگرہار میں داعش کے قریب سو جنگجو ہلاک
سب سے بڑا غیر جوہری بم ننگرہار پر ہی کیوں گرایا گیا؟
اس بم کو تمام بموں کی ماں کیوں کہا جاتا ہے؟
اسی بارے میں اتوار کے روز کابل میں افغان صدر اشرف غنی کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف سے ٹوئٹر پر ہی ایک پیغام میں کہا گیا، ’’لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میکماسٹر کو خوش آمدید اور آپ کی طرف سے مسلسل تائید و حامیت کے لیے بھی ہماری طرف سے شکریہ۔‘‘
امریکی فوج نے ایک فضائی حملے میں جمعرات تیرہ اپریل کی شام افغان صوبے ننگرہار کے ضلع آچین میں دنیا کے جس سب سے بڑے غیر جوہری بم کے ساتھ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے زیر زمین سرنگوں اور غاروں کے سلسلے کو تباہ کر دیا تھا، اس بم حملے میں داعش کے کم از کم بھی 95 جنگجو ہلاک ہو گئے تھے۔
افغانستان میں ’دنیا کے سب سے بڑے غیر ایٹمی بم‘ سے حملہ
افغان وزارت دفاع کے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ان تقریباﹰ سو ہلاک شدگان میں سے کوئی ایک بھی عام شہری نہیں تھا اور مرنے والے جنگجوؤں میں داعش کے چار سرکردہ کمانڈر بھی شامل تھے۔
یہ حملہ جس بم سے کیا گیا تھا، اس کا وزن قریب دس ہزار کلو گرام تھا اور اسے Massive Ordnance Air Blast یا ’وسیع تر بارود سے فضائی دھماکا‘ کرنے والا ہتھیار کہا جاتا ہے۔
GBU-43B نامی یہی بم مختصراﹰ MOAB بھی کہلاتا ہے اور فوجی حلقے اسے عرف عام میں ’تمام بموں کی ماں‘ بھی کہتے ہیں۔ ننگرہار میں اس بم کا گرایا جانا وہ پہلا موقع تھا کہ امریکا نے کسی مسلح تنازعے میں اس بم کو اپنے دشمن کے خلاف استعمال کیا تھا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ افغانستان میں اس بم کے گرائے جانے پر کئی حلقوں نے حیرانی کا اظہار بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکا افغانستان کو اپنے ہتھیاروں کے تجربات کرنے کی جگہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے، وہ بھی اس وقت جب اس ملک میں داعش اتنا بڑا خطرہ بالکل نہیں جتنے کہ وہاں برسوں سے بہت سرگرم اور زیادہ خطرناک طالبان تحریک کے جنگجو، جو ملک کے کئی علاقوں پر قابض ہیں۔