ستاروں سے آگے، NASA کے پچاس سال
4 اگست 2008آسمان کی تا حدِ نگاہ پھیلی فضا تخلیقِِ آدم کے لئے حیرت کا باعث ہے۔ صدیوں سے انسان اِس کھوج میں رہا ہے کہ کرہ ارض سے پرے کیا ہے۔ وہاں کیا ہے۔ اِس مناسبت سے کئی قصے کہانیاں بھی انسانی ذہن نے تخلیق کئے۔ خلائی مخلُوق کا زمین پر حملے اور اُن کے خلاف انسانی جدو جہد فلموں اور ڈائجسٹوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔
پھر قدیمی کہانیوں کے بعد جدید دور میں داخل ہوں توٹائم مشین کا تصور کسی حد تک خلا میں جانے والے تیز رفتار خلائی جہازوں سے ملتا ہے۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی سوچ نے برسوں پہلے جو خواب بُنے تھے وہ موجودہ دور کی خلائی تحقیق میں تشکیل پاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ قصے کہانیاں صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
امریکی اور روسی سائنسدانوں کے ہمراہ دوسری اقوام کے ریسرچرکی تحقیق کے تناظر میں خلا کے بارے میں ایک مضمون سپیس سائنس بھی سامنے آ چکا ہے جو اب انتہائی وسیع اور جامع ڈسپلن تصور ہوتا ہے۔ اِس مضمون کی وجہ سے انسان کو فلکیات اور کائنات کی نئی حدود کا تعیّن کرنے میں آسانیاں میسر ہوئی ہیں۔
فلکیات اور کائنات کی ابتدا اور انتہا ایسے موضوع ہیں، جن پر برس ہا برس سے انسانی سوچ مصروف ہے اور ابھی بھی سب قیافے اور اندازے بیان کئے جا رہے ہیں۔ تمام تر پیش رفت بھی ناکافی دکھائی دیتی ہے۔ اِسی مناسبت سے کائنات کی فزکس کے نام سے ایک نیا مضمون متعارف کیا جا چکا ہے، جسے محققین ایسٹرو فزکس کہتے ہیں۔
خلائی سائنس میں کیمیا، طبعیات، حیاتیات کے وہ نظریات جو ماورائے زمین ہیں اُن کو خلائی سائنس کے دائرے میں لایاجا چکا ہے۔ لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ فزکس میں کی جانےوالی خلائی سائنسی تحقیقی اِس ڈسپلن کے قیام میں مفید اور فائدہ مند تصور کی جاتی ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ راکٹ کی ایجاد سے ہی خلائی سائنس کی بنیاد رکھ دی گئی تھی اور بعد کی تمام پیش رفت اُس ایک ایجاد کے مرہُونِ منت ہے۔ بعد میں اِنسان کو یہ معلُوم ہوا کہ سترہ سو کلو میٹر سے زمین کا مدار شروع ہو جاتا ہے اور اِسی خلا میں ایک خاص فاصلے کے بعد آکسیجن گیس ناپید ہو جاتی ہے۔ راکٹ ہی کی ایجاد نے انسان کو جرأت دی کہ اُس نے چاند پر کمند ڈالی، مریخ اور زہرہ کی ماہیت کا ادراک حاصل کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ اِسی تحقیق سے معلُوم ہوا کہ نظام شمسی کا سیارہ پلوٹو سیارہ نہیں اور اِس مناسبت سے نظام شمسی کے تعریف ازسرِ نو کرنا پڑی۔
نظام شمسی ایک کہکشاں ملکی وے میں قائم ہے ۔ اِس کے علاوہ کہکشاؤں کے بارے میں بھی ریسرچ کا عمل شروع ہوا۔ مختلف کہکشاؤں کا پتہ چلانے میں کامیابی کے بعد یہ معلُومات عام انسانوں کے لئے عام کی جا چکی ہیں۔ اِسی طرح اور بہت ساری فلکیاتی اجسام کا پتہ چلا جو زمین کے قریب ہیں اور اُن کا اثر ماحول پر محسوس کیا جاتا ہے جیسے کے سی رَس سیارہ ہے جس کو ڈاگ سٹار بھی کہا جا تا ہے جس کے قریب آنے کی وجہ سے جولائی اور اگست میں گرمی میں اضافہ محسوس کیا جاتا ہے۔
گزشتہ صدی کی نوے کی دہائی میں ہبل ٹیلی سکوپ کا خلا میں بھیجنے سے معلُوم ہوا کہ یہ کائنات ناتمام ہے، ایسے سیارچوں کی دریافت کا پتہ چلا جو تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔ خلائی سائنس میں تحقیق سے موصلاتی نظام میں پیدا ہونی والی تبدیلیاں انتہائی اہم ہیں۔ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ خلائی سائنس میں جدید تحقیق نے انسانوں کے درمیان رابطوں کو بہتر انداز میں استوار کردیا ہے۔
اِسی طرح ریڈیو نشریات کو ڈجیٹل انداز میں ترسیل کرنے میں آسانیاں میّسر آئی ہیں۔ ٹیلی ویژن کے سگنل انتہائی اعلیٰ معیار کے ترسیل ہو رہے ہیں اور اِنہی کے باعث لوگ دنیا بھر میں کھیل، تفریح اوردوسری خصوصی تقریبات مثلاً آسکر ایوارڈز وغیرہ بڑی آسانی سے دیکھ پا رہے ہیں۔
خلائی سائنس میں جدید اور تازہ سرنامہ خلائی میڈیسن ہے۔ یہ اُن انسانوں کی صحت کے بارے میں ہیں جو خلا کے سفر پر جاتے ہیں۔ اب تو بات خلائی سیاحت تک جا پہنچی ہے اور مسافر بردار خلائی جہازوں کی تخلیق پر کام شروع ہے۔ دیکھنا یہ باقی ہے کہ کب، کہاں اور دنیا بھر سے کتنے مسافر پہلی کمرشل فلائٹ کے ذریعے خلا نوردی اور خلائی سیاحت کے لئے روانہ ہوں گے۔
فلکیات جو اب تقریباً خلائی سائنس کا ایک ذیلی مضمون کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اُس میں ریسرچ کو مہمیز خلا میں پہچنے کی جُستجُوسے ہوا۔ چار اکتوبر سن اُنیس سو ستاون کو پہلی بار انسان بردار خلائی جہاز روس نے روانہ کیا تب سے امریکہ میں خلائی ریسرچ کو اہمیت دیتے ہوئے جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔
اِس مناسبت سے خلائی تحقیق میں امریکی ریسرچ بلاشبہ اقوام میں سرخیل ہے۔ امریکی خلائی ریسرچ کو ایک جہت بیس جولائی کو حاصل ہو ئی جب اپالو گیارہ نے چاند کی سرزمین پر اترنے کی آزمائش میں کامیابی حاصل کی۔ چاند پر انسان بردار جہاز کوروانہ کرنا، سکائی لیب، خلائی جہازوں کی آمدو رفت میں تسلسل کے ساتھ خلائی سٹیشن کا قیام بہر طور ایک شاندار کارنامہ ہے جس پر امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنسدانوں کو احترام و عزت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکہ کی دیکھا دیکھی اور بہت ساری اقوام بھی اِس میدان میں اُتر چکی ہیں۔ روس تو بہت پہلے سے خلائی دوڑ میں موجود ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ ساتھ اب جاپان بھی مستقبل کے حوالے سے اپنے پروگرام ترتیب دے چکا ہے۔ ایسا ہی بھارت میں دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل خلا میں راکٹ داغنے کا ایک نیا ریکارڈ بھی بھارت نے قائم کیا تھا۔