سترہ ہزار کلومیٹر دور نیو کیلیڈونیا فرانس ہی کا حصہ رہے گا
4 نومبر 2018فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے اتوار چار نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق نیو کیلیڈونیا میں آج ایک ایسا ریفرنڈم کرایا گیا، جس میں عوام کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنے ملک کی آزادی اور خود مختاری چاہتے ہیں یا آئندہ بھی فرانس ہی کا حصہ رہنا پسند کریں گے۔
کئی چھوٹے بڑے لیکن انتہائی خوبصورت جزائر پر مشتمل اس ملک میں سیاسی طور پر فرانس کا حصہ رہنے کے خواہش مند شہریوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جبکہ آزادی کے حامی شہریوں پر مشتمل سیاسی دھڑا بھی بہت چھوٹا نہیں ہے۔
مجموعی آبادی صرف دو لاکھ اسی ہزار
نیو کیلیڈونیا کے مقامی میڈیا کے مطابق آج ہونے والے ریفرنڈم میں رائے دہندگان کی قریب 80 فیصد تعداد نے حصہ لیا۔ ان میں سے 95 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد تک کے نتائج یہ تھے کہ قریب 57 فیصد مقامی باشندوں نے اپنے ملک کے آئندہ بھی فرانس ہی کا حصہ رہنے کی حمایت کی۔
یوں ابتدائی، تقریباﹰ مکمل لیکن غیر سرکاری نتائج کے مطابق یہ واضح فیصلہ ہو گیا ہے کہ نیو کیلیڈونیا مستقبل میں بھی فرانس ہی کا حصہ رہے گا۔ اس ریفرنڈم میں ووٹ دینے کے اہل بالغ شہریوں کی تعداد قریب پونے دو لاکھ تھی جبکہ ان جزائر کی مجموعی آبادی دو لاکھ اسی ہزار کے قریب ہے۔
نیو کیلیڈونیا جبوتی نہیں
اس ریفرنڈم میں نیو کیلیڈونیا کے عوام کے آئندہ بھی فرانس کا حصہ رہنے کے اکثریتی فیصلے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ نیو کیلیڈونیا کے عوام نے فرانس اور پیرس حکومت پر جس گہرے اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ پورے فرانس کے لیے باعث فخر ہے۔
اس ریفرنڈم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ جنوبی بحرالکاہل کی اس ریاست میں نوآبادیاتی دور حکومت کے ممکنہ خاتمے کے تین عشروں پر محیط عمل کا نقطہ عروج تھا۔ اس سے قبل فرانس کے کسی ریاستی علاقے میں ایسا ریفرنڈم 1977ء میں کرایا گیا تھا، جس میں مشرقی افریقی ملک جبوتی کے عوام نے اپنے ملک کی فرانس سے آزادی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
1853ء سے فرانسیسی نوآبادی
نیو کیلیڈونیا کے بارے میں یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس مجموعہ جزائر کو تحقیقی سفر کرنے والے برطانوی ماہر جیمز کُک نے دریافت کیا تھا اور 1853ء میں فرانس نے اسے اپنی ایک نوآبادی بنا لیا تھا۔ اس ریاست میں تب سے ہی قدیم مقامی باشندوں اور نوآبادیاتی فرانسیسی طاقت کے مابین کھچاؤ پایا جاتا ہے۔ قدیم مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والے ’کوناک‘ باشندوں کی موجودہ نسل آج بھی اس ملک کی آزادی کی حامی ہے۔
اس پس منظر میں 1980ء کی دہائی میں نیو کیلیڈونیا پر فرانسیسی حکمرانی کے خلاف فسادات بھی شروع ہو گئے تھے، جن کے بعد 1988ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت 2018ء تک وہاں ایک ایسا ریفرنڈم منعقد کرایا جانا تھا، جس میں عوام خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ فرانس کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا اپنے ملک کی آزادی کے خواہش مند ہیں۔
اگر آج چار نومبر کو ہونے والے اس ریفرنڈم کے نتائج آزادی کے حق میں جاتے تو پھر وہاں 2022ء میں ایک نیا اور حتمی ریفرنڈم بھی کرایا جانا تھا۔
آج کے ریفرنڈم کے حوالے سے پیرس میں فرانسیسی حکومت نے کوشش کی تھی کہ وہ غیر جانبدار رہے اور آزادی کے حامیوں اور مخالفین میں سے کسی کی بھی حمایت نہ کرے۔
دنیا میں نکل کے ایک چوتھائی ذخائر کا مالک ملک
اگر اس ریفرنڈم کا نتیجہ یہ نکلتا کہ نیو کیلیڈونیا فرانس سے علیحدہ ہو کر ایک آزاد ریاست بن جائے، تو فرانس کو ان جزائر میں سے ایک پر اپنا ایک فوجی اڈہ بھی خالی کرنا پڑتا۔
یہ بات عسکری حوالے سے اس لیے بھی اہم اور پیرس کے مفادات کے خلاف ہوتی کہ چین اسی علاقے میں اپنی عسکری موجودگی مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے۔ نیو کیلیڈونیا کے مجوعہ جزائر کو فرانس کی طرف سے ہر سال 103 ارب یورو کی مالی امداد بھی دی جاتی ہے۔
اقتصادی حوالے سے انتہائی اہم بات یہ بھی ہے کہ جنوبی بحرالکاہل کی اس ریاست میں جتنے بھی قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، ان میں سے نکل سب سے اہم ہے۔ دنیا میں نکل کے جملہ قدرتی ذخائر میں سے قریب ایک چوتھائی صرف اس ریاست میں پائے جاتے ہیں۔ نیو کیلیڈونیا میں اس نکل کو نکالنے کا کام کان کنی کے شعبے کی ایک بہت بڑی فرانسیسی کمپنی ’ایراموں‘ کی ملکیت ایک ذیلی ادارہ کرتا ہے۔
م م / ع ح / روئٹرز