سرپرستی کا قانون ختم کیا جائے، ہزاروں سعودیوں کی پٹیشن
27 ستمبر 2016سعودی عرب میں رائج سرپرستی یا گارڈین شپ کا ضابطہ مردوں کو خواتين رشتہ داروں کی تعليم، شادی بياہ اور سفری اور ديگر معاملات ميں حقوق فراہم کرتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس پٹیشن کے حوالے سے مہم چلانے والی خاتون عزیزہ الیوسف کا کہنا ہے کہ پيٹيشن ميں مطالبہ کيا گيا ہے کہ سعودی خواتین کو ’مکمل شہری‘ ہونے کا حق دیا جائے۔ اس کے علاوہ يہ مطالبہ بھی کيا گيا ہے کہ عورتوں کے ليے ایک ایسی عمر مقرر کی جائے کہ جب انہيں بالغ ہونے مانا جائے اور جب وہ اپنے فيصلے خود کر سکيں۔
ايک يونيورسٹی کی ریٹائرڈ پروفيسر عزیزہ الیوسف نے اے ايف پی کو بتايا کہ پيٹيشن پر ساڑھے چودہ ہزار سے زائد افراد دستخط کر چکے ہیں اور انہوں نے پير 26 ستمبر کو یہ پٹیشن سعودی عرب کی رائل کورٹ میں جمع کرانے کی کوشش کی مگر اسے وصول کرنے سے انکار کر دیا گیا ، لہذا اب اسے بذريہ ڈاک بھيجا جائے گا۔
اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں خواتین کے لیے سخت ترین پابندیاں موجود ہیں اور واحد ایسا ملک ہے جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہے۔ گارڈین شپ نظام کے مطابق یہ لازمی ہے کہ خاندان کا کوئی مرد خواتین کو تعلیم، سفر اور دیگر معاملات کے لیے باقاعدہ اجازت دے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عزیزہ یوسف کے مطابق اگر سرپرستی کے اس نظام کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو اس سے خواتین کے لیے ملازمت کرنا آسان ہو جائے گا اور اس سے سعودی حکومت کی ان کوششوں کو بھی سہارا ملے گا جو وہ خواتین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو برسر روزگار کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم اس ہدف کو اس وقت تک حاصل کر ہی نہیں سکتے جب کہ معاشرے کی نصف آبادی مفلوج ہے۔‘‘