1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسری لنکا

سری لنکا میں سیاسی بحران: صدر راجاپکسے سمیت کئی وزراء مستعفی

10 جولائی 2022

سری لنکا میں ہزاروں مظاہرین کی جانب سے صدر کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوے کے بعد صدر گوٹابایا راجاپکسے نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ احتجاجی مظاہرین نے وزیر اعظم کے گھر کو بھی نذر آتش کردیا۔

https://p.dw.com/p/4DubW
سری لنکا میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا، متعدد وزراء مستعفی
سری لنکا میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا، متعدد وزراء مستعفی تصویر: Eranga Jayawardena/AP/dpa/picture alliance

سری لنکا میں حکام نے اعلان کیا ہے کہ صدر گوٹابایا راجاپکسے  اگلے ہفتے مستعفی ہوجائیں گے۔ اسپیکر مہندا یاپا ابی وردینا نے ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ راجاپکسے نے انہیں ذاتی طور پر اقتدار چھوڑنے کے فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔

ابی وردینا نے مزید کہا کہ 13 جولائی کو عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ پر امن طور پر اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ان کے بقول، ''اس لیے میں عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قانون کا احترام کریں اور امن و امان کو برقرار رکھیں۔‘‘

کولمبو میں ہزاروں مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بول دیا
کولمبو میں ہزاروں مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بول دیاتصویر: Eranga Jayawardena/AP/dpa/picture alliance

قبل ازیں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ہزاروں مظاہرین نے صدر کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس کے چند گھنٹے بعد صدر گوٹابایا راجاپکسے نے اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق راجاپکسے کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

یہ سب کیسے ہوا؟

سکیورٹی فورسز نے گزشتہ روز مشتعل ہجوم  کو صدارتی محل میں گھسنے سے روکنے کی کوشش میں ہوائی فائرنگ کی لیکن احتجاجی مظاہرین آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔ بعد ازاں قومی ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ مظاہرین عمارت کے باہر اور اندر ہجوم کی شکل میں جمع ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ مظاہرین صدر کی سرکاری رہائش گاہ کے کمروں میں داخل ہوگئے اور بعض افراد سوئمنگ پول میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔

سری لنکا میں مظاہرین صدر کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہو گئے
احتجاجی مظاہرین صدر کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہو گئےتصویر: AFP

اس کے علاوہ مظاہرین نے وزیر اعظم کے گھر کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے  مستعفی ہونے پر رضامند ہو گئے۔ انہوں نے یہ فیصلہ اپنی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ ہنگامی اجلاس کے بعد کیا۔  وکرما سنگھے نے کہا کہ وہ ملک میں جاری مظاہروں اور معاشی بحران کے تناظر میں ایک آل پارٹی حکومت کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کی اس کارروائی کے وقت وزیر اعظم اور ان کی فیملی گھر پر موجود نہیں تھے۔

ان اعلانات کے بعد دارالحکومت کولمبو میں جشن کا سماں تھا اور پرجوش مظاہرین کی جانب سے آتش بازی بھی کی جارہی تھی۔

علاوہ ازیں امریکہ نے سری لنکا کے رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ طویل مدتی حل تلاش کرنے کے لیے تیزی سے کام کریں۔

سری لنکا میں احتجاجی مظاہرے
سری لنکا میں احتجاجی مظاہرےتصویر: Thilina Kaluthotage/AP/picture alliance

سری لنکا میں بدترین معاشی بحران

سری لنکا کئی مہینوں سے اپنی کے تاریخ کے بدترین ترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کے بائیس ملین عوام اس وقت ضروری اشیا کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ سری لنکا پر اس وقت 50 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا غیر ملکی قرض ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں پٹرول، ادویات اور خوراک جیسی ضروری اشیا بہت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے حال ہی میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ اس بحران سے متعلق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت جاری ہے تاہم بیل آؤٹ پیکج پر گفت شنید کا انحصار قرض دہندگان کے ساتھ قرض کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے پر منحصر ہے، جو اگست تک ممکن ہو سکے گا۔

ع آ / ر ب (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں