سعودی حمایت کا اعلان: کیا ہم تنازعے کا حصہ بننے جارہے ہیں؟
20 ستمبر 2019عمران خان نے یہ پیشکش سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز سے جمعرات کو ملاقات کے دوران کی۔ سعودی بادشاہ نے اس پیشکش کو سراہتے ہوئے جواب میں کہا کہ سعودی عرب صورت حال سے خود نمٹ سکتا ہے۔ عرب نیوز کے مطابق بادشاہ کا کہنا تھا کہ ریاض ایسے مجرمانہ اقدامات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو خطے کی سلامتی، استحکام اور تیل کی بین الاقوامی رسد کو ہدف بناتے ہیں۔
سعودی بادشاہ کے بیان کے باوجود پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ خدشہ ہے کہ اسلام آباد مشرق وسطی کے تنازعے کا حصہ بننے جارہا ہے، جس سے ملک کے قومی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عمران خان نے سعودی عرب جانے سے پہلے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے بھی تخریبی کارروائیوں کے خلاف ریاض کے لیے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
اس ٹیلفونک بات چیت کے بعد اس بیان کے آنے پر سیاست دان اور تجزیہ نگار عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں اور خبر دار کر رہے ہیں کہ مشرق وسطی کے تنازعے سے پاکستان دور رہے کیونکہ اس سے، ان کے خیال میں، ملک کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پی پی پی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کے خیال میں ''ہمیں مشرق وسطی کی جنگ میں کسی کی بھی طرف داری نہیں کرنا چاہیے۔ اس جنگ میں یمن، ایران ، سعودی عرب اور خطے کے دوسرے ممالک فریق ہیں۔ ہمیں یمن میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ یواین کی فوج وہاں بھیج کر انتخابات کرائے جائیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔ اگر ہم فریق بنیں گے، تو ہمارے لیے بہت سے مسائل کھڑے ہوں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر مقدس مقامات پر حملہ ہوتا ہے تو اس کی حفاظت پورا عالم اسلام کرے گا۔ ''لیکن پارلیمنٹ میں جو یمن کے مسئلے پر قرار داد منظور کی گئی تھی اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ اگر سعودی بادشاہت یا جغرافیائی حدود پر حملہ ہو تو پاکستان اس کا دفاع کرے گا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سعودی عرب پر کوئی حملہ ہو یا خطے میں جنگ ہو۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ہم جنگ کی نوبت ہی نہ آنے دیں اور یمن کے مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ میرے خیال میں وزیر اعظم کا یہ بیان غیر داشمندانہ ہے۔‘‘
کئی تجزیہ نگار وزیر اعظم کے اس بیان کو ایک پالیسی شفٹ قرار دے رہےہیں۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کے خیال میں وزیر اعظم کے بیان کو بدلتے ہوئے سیاسی اور اسٹریٹیجک ماحول میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ''نواز کے دور میں پاکستان چین، ایران ، روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے قریب نظر آرہا تھا لیکن اب ہم ایک بار پھرمغربی کیمپ میں آرہے ہیں جہاں امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دنیا کے دوسرے ممالک ہیں جب کہ دوسری طرف چین، ایران اور کئی دوسری ریاستیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی و امریکی کیمپ میں بھارت پہلے سے موجود ہے، جس کو امریکا اور عرب ممالک دونوں ہی اہمیت دیتے ہیں۔ تو وہاں ہمیں کیا فائدہ ہوگا لیکن اگر ہم چین و ایران کیمپ میں ہوتے تو ہمیں فائدہ ہوتا۔‘‘
پاکستان میں حکومتیں کئی برسوں سے یہ تاثر دے رہی ہیں کہ اسلام آباد کسی تنازعے میں فریق نہیں بنے گا بلکہ غیر جانبدار رہے گا اور صرف مقامات مقدسہ پر حملے کی صورت میں ان کی حفاظت کرے گا۔ امان میمن کا کہنا ہے کہ اب یہ تاثر کمزور ہو رہا ہے۔ ''اگر ہم ریاض کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں تو ہماری غیر جانبداری کہاں ہے اور اگر ہمارا جنرل ضیاء کے آمرانہ دور میں کوئی معاہدہ سعودی عرب سے ہوا تھا تو اس کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ صرف پارلیمںٹ ہی ایسے مسئلے پر فیصلہ کر سکتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اجتماعی دانش کبھی اس تنازعے میں کودنے کی وکالت نہیں کرے گی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ایسا کرنے سے معاشرہ اور ریاست تقسیم ہو سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران میں ہے۔ اسلام آباد آئی ایم ایف سے قرضے بھی لینے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ امداد کے اور راستے بھی تلاش کر رہا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینیٹر کے سابق ڈائرکٹر ڈاکڑ سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پیسے کی مجبوری پاکستان کو ریاض کی حمایت پر مجبور کر رہی ہے۔''ہمیں سعودی عرب سے پیسے کی خوشبو آرہی ہے، تو ہم وہاں جانے کی پیشکش کر رہے ہیں اور لڑنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے ملک میں شیعہ سنی تقسیم مزید شدید ہوگی اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔‘‘
تاہم ملک کے کئی حلقے اس بات کا دفاع بھی کرتے ہیں کہ ہمیں ریاض کی مدد کرنی چاہیے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ہمارا ایک معاہدہ ہے جس کے تحت ہم ان کی مدد کرنے کے پابند ہیں گو کہ اس کے ساتھ شرائط ہیں۔ ''جنرل ضیا کے دور میں ہم نے ان سے معاہدہ کیا تھا اور جب سعودی عرب کو صدام حسین سے خطرہ ہوا تو ہم نے وہاں فوج بھیجی۔ میرے خیال میں ایک ڈویژن فوج بھیجنے کا معاہدہ ہے۔ لیکن ہماری فوج صرف دفاعی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی ہے۔ ریاض کسی ملک پر حملہ کرنے کے لیے اس کو استعمال نہیں کر سکتا اور جو بھی فوج کا پاکستانی کمانڈر ہے وہ سعودی احکامات کے بارے میں جی ایچ کیو کو مطلع کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ یہ احکامات مانے یا نہیں۔ تو شرائط کے ساتھ ہم وہاں فوج بھیج سکتے ہیں۔‘‘