سعودی خواتین میں ’پول ڈانس‘ کی مقبولیت میں اضافہ
13 اکتوبر 2022جب سعودی عرب کی ایک یوگا انسٹرکٹر ندا نے پول ڈانس شروع کیا تو قدامت پسند سعودی معاشرے میں اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ ندا تب سے ہی اس صورتحال کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ دارالحکومت ریاض میں مقیم ندا کے خاندان کے افراد اور ان کے دوستوں نے بھی ان کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور ان کے لیے اس جسمانی مشق جس میں طاقت اور ہم آہنگی کا امتزاج شامل ہے، کو ایک انتہائی غلط فیصلہ قرار دیا۔
28 سالہ ندا کا خیال ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''پہلے تو لوگوں نے کہا کہ یہ نامناسب عمل اور ایک بڑی غلطی ہے تاہم اب وہ بھی پول ڈانس سیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
لیکن ندا کا اپنا مکمل نام ظاہر نہ کرنے پر اصرار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہیں اور دیگر سعودی پول ڈانسرز کو ابھی اس ضمن میں بہت کام کرنا ہوگا۔
سعودی عرب میں کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا آرہا ہے۔ خواتین کا لباس، ان کے کام کی نوعیت، وہ کہاں کام کر سکتی ہیں، سب سخت ترین پابندیوں کے شکنجے میں ہیں اور اسی باعث ان کے تفریح کے مواقع بھی محدود ہو چکے ہیں۔
مسلسل مخالفت کے باوجود خواتین کے کھیل حال ہی میں سعودی معاشرے میں فروغ پا رہے ہیں اور اس کا بنیادی مقصد بیرونی دنیا کے سامنے سعودی عرب کا ایک سافٹ امیج پیش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ سعودی عرب میں خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم اور بھوٹان کے مابین مقابلوں کا انعقاد کیا گیا اور خواتین کی پریمیئر لیگ کے ہونے کی بھی امید ہے۔
ان بدلتے حالات کے تناظر میں سعودی عرب میں کم از کم تین جمز نے پول ڈانسنگ کورسز کی پیشکش شروع کر دی ہے۔ ریاض میں قائم ایک جم کی مالک مئے الیوسف نے کہا، ''مجھے لگتا ہے کہ پول ڈانس پر زیادہ توجہ دی گئی ہے کیونکہ یہ ایک نئی چیز ہے اور لڑکیاں رقص کے اس انداز میں دلچسپی لے رہی ہیں۔‘‘
پول ڈانس کے شوقین افراد کا کہنا ہے کہ چونکہ سعودی عرب میں شراب پر پابندی ہے، اور کوئی سٹرپ کلب نہیں ہیں اس لیے اس سرگرمی کی خراب ساکھ کی سوچ بیرون ملک سے آئی ہے۔
ریاض میں پول ڈانس کرنے والی ایک طالبہ کے مطابق انہیں یہ ڈانس کرنے میں بالکل بھی شرم نہیں آئی۔ انہوں نے کہا، ''یہ میری شخصیت کا حصہ ہے اور میں اپنی جنسیت، اپنی نسائیت کو قبول کرنے میں شرمندہ نہیں ہوں۔ جب تک میں دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب نہیں بن رہی مجھے کسی چیز پر شرم نہیں آنی چاہیے۔‘‘
لیکن وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ہر کسی کے لیے یہ تجربہ اتنا آرام دہ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے بھی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
انہوں نے کہا، ''میں نے پول ڈانس ترک کر دیا کیونکہ یہ اتنا آسان نہیں جتنا اسکرین پر نظر آتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ طاقت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
جم منیجر یوسف نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ جو تصاویر اوہ اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتی ہیں اس کی وجہ سے اس ڈانس کو سعودی عرب میں مقبولیت حاصل ہو گی اور ان کا خیال ہے کہ اس ڈانس کے فوائد ان کے جم میں آنے والے لوگ اپنی جسمانی ساخت میں تبدیلی کے طور پر محسوس کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا، ''وقت کے ساتھ وہ اپنے جسم کو زیادہ پسند کرنے لگتے ہیں اور اپنے بارے میں اچھا محسوس کرتے ہیں۔‘‘
ر ب/ ع ت (اے ایف پی)