’سعودی صرف مغرب کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں‘
22 نومبر 2017الثانی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے اس سعودی دعوے کو بھی رد کیا، جس کے مطابق قطر کی جانب سے دہشت گردی میں تعاون کی وجہ سے تمام تر تعلقات توڑے گئے ہیں، ’’قطر انسداد دہشت گردی کی جنگ میں سرگرم انداز میں شامل ہے۔ بلکہ حقیقت میں تو ہم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے بانیوں میں سے ہیں۔ اسے قطر کی ناکہ بندی کو حق بجانب قرارد دینے کے لیے ایک جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔‘‘
اس موقع پر الثانی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو مذاکرات کی میز پر واپس نہ آنے کے سلسلے میں مورد الزام بھی ٹھہرایا ہے، ’’ہم ان کے تحفظات سمجھنا چاہتے ہیں مگر وہ بات کرنے پر ہی تیار نہیں۔‘‘ ان کے بقول اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلامتی کے حوالے سے جس پریشانی یا فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ سب غلط ہے، ’’اگر وہ واقعی امن و تحفظ کے خواہاں ہوتے تو وہ لازماً مسئلے کو حل کرنے کی کوشش بھی کرتے۔‘‘ الثانی نے مزید کہا کہ سعودی صرف مغرب کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
خطے میں عدم استحکام
قطری وزیر خارجہ کے بقول یہ ممالک اسے ایک معمولی سا غیر اہم مسئلہ کہتے ہیں لیکن پورا خطہ اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ الثانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تنازعہ قطری شہریوں کے لیے کسی حد تک پریشانیوں کا باعث ہے۔ طالب علموں کو جامعات سے نکال دیا گیا، خاندان ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور عام افراد کی رسائی ادویات اور دیگر بنیادی اشیاء تک مشکل ہو گئی ہے۔ آخر میں قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے ڈی ڈبلیو سے کہا، ’’ہم سنجیدہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
جولائی سے قطر کے پڑوسیوں نے اس کے ساتھ تمام تر رابطے منقطع کیے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے بنیادی اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور قطری شہریوں کو سفر میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ کا تعلق 2011ء میں عرب خطے میں آنے والے اس انقلاب سے بھی ہے، دوحا نے جس کی حمایت کی تھی اور سعودی عرب نے مخالفت۔ اس کے علاوہ ریاض حکومت دوحا کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر بھی نالاں ہے۔