سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرے، امریکی قانون سازوں کی کوششیں
1 اگست 2009امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے بریڈ شیرمین اور رپبلکن پارٹی کے نمائندے ایڈ روئس کی قیادت میں امریکی کانگریس کے دو سے زائد اراکین نے سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے امریکہ کی جانب سے اس افسوس کا اظہار کیا ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے عوامی ذرائع کا استعمال نہیں کیا۔
امریکی قانون سازوں نے مصر کے سابق صدر انور سادات کی مثال دیتے ہوئے ان کے انیس سو ستتّر کے دورہِ اسرائیل کے ذکر کے علاوہ اردن کے سابق بادشاہ حسین کے اردن اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تعلقات استوار کرنے کی مثالیں پیش کیں جس کے نتیجے میں مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آئے تھے۔ امریکی سینیٹروں نے امید ظاہر کی کہ سعودی فرماں روا مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے لیے اردن اور مصر کی راہ اپنائیں گے۔
امریکی سینیٹروں نے امریکی صدر باراک اوباما کی جون کے مہینے میں قاہرہ میں کی گئی اس تقریر کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے عرب ممالک سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی اپیل کی تھی۔ امریکی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر مایوسی ہوئی کہ سعودی عرب کی جانب سے امریکی صدر کی تقریر پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
امریکی کانگریس کے اراکین کی جانب سے کیے گئے مطالبے کو سعودی عرب نے رد کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ سعود الفیصل نے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔ واشنگٹن میں امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل تمام مقبوضہ عرب علاقوں سے کنٹرول ختم کر دے۔
سعود الفیصل کا کہنا تھا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کو کیا پیش کر سکتے ہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اسرائیل عرب ممالک کو کیا دینے کے لیے تیّار ہے۔
واضح رہے کہ سن دو ہزار دو میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کی ایک تجویز پیش کی گئی تھی جس کے مطابق اسرائیل کے1967 کی جنگ میں قبضہ کیے گئے عرب علاقوں سے دست بردار ہونے کی صورت میں عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مکمل تعلقات بحال کرنے کے لیے راضی تھے۔ اس تجویز کی منظوری عرب لیگ نے بھی دی تھی جس کی رو سے ویسٹ بینک اور غرّہ پٹّی، آزاد فلسطینی ریاست میں شامل ہونا تھے اور مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا تھا۔
سعودی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل امریکہ تک کے مطالبے کو ماننے کے لیے تیّار نہیں ہے جس میں امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیل سے غربِ اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کی اپیل کی ہے۔