سعودی عرب: خواتین کو مزید حقوق مل گئے
2 اگست 2019سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے ملکی قوانین میں ترمیم کا اعلان آج جمعہ دو اگست کو کیا گیا ہے۔ نئی ترامیم کے مطابق اب سعودی خواتین 'مرد سرپرست‘ کے بغیر پاسپورٹ بھی حاصل کر سکتی ہیں اور انہیں اکیلے سفر کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
یہ ترامیم سرکاری گزٹ میں شائع کی گئی ہیں اور ان کی رو سے کوئی بھی سعودی شہری جس کی عمر 21 برس یا اس سے زائد ہو اور وہ پاسپورٹ کے لیے درخواست دیتا ہے تو اسے پاسپورٹ جاری کیا جانا چاہیے اور اسے سفر کے لیے کسی سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔
ان ترامیم میں کسی صنف کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن ساتھ ہی ان میں خصوصی طور پر خواتین کا ذکر بھی نہیں کیا گیا۔ سعودی عرب کے سرکاری گزٹ ام القریٰ پر شائع ہونے والی ترامیم کے مطابق، ''کسی بھی سعودی شہری کو جو پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواست دے گا، اسے پاسپورٹ جاری کیا جائے گا۔‘‘
نئے قوائد کے تحت خواتین بچے کی پیدائش، شادی یا طلاق کو رجسٹر کرا سکتی ہیں اور اس کے علاوہ انہیں خاندان سے متعلق دستاویزات جاری کی جا سکتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ کم عمر بچوں کی سرپرست بھی بن سکتی ہیں۔ وہ خواتین کے لیے ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کر سکتی ہیں۔
قدامت پسند اور بادشاہت کا نظام رکھنے والا ملک سعودی عرب خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا بھر کی نظروں میں رہا ہے۔ یہ ایک برس قبل تک دنیا کا واحد ایسا ملک تھا جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ خواتین نہ تو کسی مرد ساتھی کے بغیر کہیں سفر کر سکتی تھیں اور نہ ہی انہیں اسٹیڈیم وغیرہ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔
تاہم سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جو دنیا کے سامنے ایک آزاد خیال اصلاح پسند کے طور اپنی ساکھ بنانے کے متمنی ہیں، خواتین کے حوالے سے ملک کے سخت قوانین میں بتدریج نرمی لانے کے لیے کوشاں ہیں۔
عالمی برادری کی طرف سے سعودی عرب پر سخت تنقید رہی ہے کہ وہاں خواتین کو شادی، سفر اور کئی دیگر بنیادی حقوق کے حصول کے لیے انہیں اپنے مرد سرپرست (والد، شوہر یا مرد رشتہ دار) کی اجازت لینا لازمی ہے۔
ا ب ا / ع ب (اے ایف پی، روئٹرز)