سعودی عرب میں خاتون سوشل میڈیا صارف کو 45 سال قید کی سزا
31 اگست 2022سعودی عرب کی ایک عدالت نے سوشل میڈیا پر ملک کو نقصان پہنچانے والی مبینہ سر گرمیوں میں ملوث ہونے پر ایک خاتون شہری کو 45 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
رواں ماہ یہ اس نوعیت کا دوسرا واقعہ تھا، جس نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سعودی عرب کے سب سے بڑے قبیلے سے تعلق رکھنے والی نورہ بنت سعید القہتانی کے بارے میں بہت ہی کم معلومات موجود ہیں اور بظاہر ان کے ایکٹویزم کا کوئی ماضی بھی نہیں ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ملزمہ کے خلاف پیش کی گئی فرد جرم دیکھنے کے بعد کہا گیا ہے کہ انہیں سوشل میڈیا کے استعمال پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم سعودی حکام اس بارے میں خاموش ہیں۔
یہ سزا اس بین الاقوامی تشویش کے بعد سنائی گئی ہے، جس کا اظہار اسی نوعیت کے ایک اور مقدمے میں سعودی حکام کی طرف سے برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی میں زیر تعلیم ڈاکٹریٹ کی سعودی طالبہ سلمیٰ الشہاب کو34 سال جیل کی سزا دیے جانے پر کیا گیا تھا۔
القہتانی کو اس ماہ کے آغاز پر ایک خصوصی فوجداری عدالت نے سعودی عرب کے انسداد دہشت گردی اور سائبر کرائم کے وسیع قوانین کے تحت 45 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ سزا القہتانی کی طرف سے انہیں دی گئی پہلی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران سنائی گئی ہے۔ ججوں نے اس خاتون پر سوشل میڈیا کے زریعے ''معاشرتی ہم آہنگی میں رخنہ ڈالنے‘‘ اور ''سماجی تانے بانوں کو غیر مستحکم‘‘ کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔ ان ججوں نے القہتانی کو ''انفارمیشن نیٹ ورک کے ذریعےامن عامہ کو نقصان پہنچانے‘‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
سعودی عرب کی ایک ناقد اور واشنگٹن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ''ڈیموکریسی فار عرب ورلڈ ناؤ‘‘ (ڈان) کے مطابق القہتانی کو 4 جولائی 2021 کو تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ القہتانی نے آن لائن کیا پوسٹ کیا اور ان کےخلاف مقدمے کی سماعت کہاں ہوئی۔ ڈان کے ریجنل ڈائریکٹر عبداللہ الاؤد کے مطابق، ''یہ ان ججوں کی طرف سے سنائی جانے والی سزاؤں کی نئی لہر کا آغاز ہے، جنہیں ان خصوصی عدالتوں میں تعینات کیا گیا ہے۔‘‘
سعودی ولی عہد کی میزبانی کرنے پر فرانس کے صدر تنقید کی زد میں
واشنگٹن میں ہی قائم انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم ''فریڈم انشیٹوو‘‘ نے بھی القہتانی کو سنائی گئی '' اشتعال انگیز طورپر طویل‘‘ سزا کی مزمت کی ہے۔ اس تنظیم کے ریسرچ ڈائریکٹر ایلیسن میک مینوس کے مطابق '' اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہےکہ ہم ان سزاؤں کو ایسے وقت دیکھ رہے ہیں جب (ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان) کی بین الاقوامی سطح پر پزیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
سوشل میڈیا صارفین کو دی جانے والی سزاؤں نے ایک مرتبہ پھر محمد بن سلمان کی طرف سے اختلاف رائےکے خلاف کریک ڈاؤن پر توجہ مبذول کرائی ہے۔ قدامت پسند سعودی معاشرے میں خواتین کو نئی آزادیاں بشمول ڈرائیونگ کا حق دینے کے باوجود سزاؤں کا یہ سلسلہ بھی جاری ہے۔
ش ر ⁄ ک م (اے پی)