سعودی عرب پہلے ’عرب فیشن ویک‘ کی میزبانی کرے گا
20 فروری 2018قدامت پسند مسلمان ملک سعودی عرب میں گزشتہ کئی دہائیوں سے فنون لطیفہ اور تفریح سے متعلق سخت قوانین لاگو رہے ہیں تاہم اب اس عرب ملک کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ 32 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان نہ صرف نوجوان نسل پر انحصار کر رہے ہیں بلکہ نجی شعبہ جات میں سعودی خواتین کو بھی با اختیار بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔
دبئی میں قائم عرب فیشن کونسل کی طرف سے اپنی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ عرب فیشن ویک کا انعقاد رواں برس 26 سے 31 مارچ تک سعودی درالحکومت ریاض میں کیا جائے گا۔ یہ فیشن ویک ریاض کے ایپکس سینٹر میں منعقد ہو گا۔ شہد کی مکھیوں کے چھتے کی شکل کا یہ ماحول دوست سینٹر معروف عراقی برطانوی ماہر تعمیرات زاہا حدید نے ڈیزائن کیا تھا۔
عرب فیشن کونسل نے گزشتہ برس دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ ریاض میں اپنا علاقائی دفتر کھول رہی ہے۔ سعودی شہزادی نورا بنت فیصل السعود کو اس کا اعزازی صدر بنایا گیا تھا۔ شہزادی نورا کی طرف سے عرب فیشن کونسل کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے، ’’ریاض میں پہلا عرب فیشن شو ایک عالمی سطح کے ایونٹ سے کہیں بڑھ کر ہو گا۔ یہ ایک ایسا عمل ثابت ہو گا جس کے باعث ہمارے خیال میں فیشن سیکٹر دیگر اقتصادی شعبوں میں بھی ترقی کا باعث بنے گا جیسے سیاحت، میزبانی، سفر اور تجارت وغیرہ۔‘‘
عرب فیشن ویک، پیرس اور میلان کے فیشن ویک کی طرح ایک بین الاقوامی فیشن ایونٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہر سال دو بار منعقد ہونے والے عرب فیشن ویک کے دوران صارفین وہاں نمائش کے لیے پیش کیے گئے ملبوسات اور فیشن کے دیگر لوازمات کو خرید بھی سکتے ہیں۔
سعودی عرب میں خواتین کے لیے اب تک عبایا پہننا لازمی تھا تاہم رواں ماہ کے آغاز میں ہی ایک سینیئر مذہبی رہنما شیخ عبداللہ المطلق نے فتویٰ دیا تھا کہ خواتین کو عبایا پہننے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ سعودی عرب کے اعلیٰ ترین مذہبی ادارے کونسل آف اسکالر کے رکن شیخ عبداللہ کے مطابق تاہم خواتین کو وہ لباس زیب تن کرنا چاہیے، جو مناسب ہو اور شرم و حیا کے تقاضوں کے مطابق ہو۔