1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سعودی عرب کو یمن میں کھلی چھوٹ ہے‘

عاطف بلوچ16 اگست 2016

یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عسکری کارروائی کو تقریبا پانچ سو دن ہو چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار ہاشم المعیسی کے بقول عالمی برداری نے سعودی عرب کو یمن میں کھلی چھوٹ‘ دے رکھی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JjF8
Jemen Krankenhaus nach Bombenangriff zerstört
تصویر: Reuters/Stringer

سعودی عسکری اتحاد یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے۔ تاہم ابھی تک ایران نواز باغیوں کو دارالحکومت صنعاء اور دیگر اہم مقامات پر پسپا کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔

عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر اس عرب ملک میں قیام امن ممکن نہ ہوا تو وہاں انسانی المیے کی صورتحال شدید تر ہو جائے گی۔ یمن میں سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے ایک اسکول پر اس حالیہ حملے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس میں مبینہ طور پر دس بچے ہلاک جبکہ دیگر دو درجن زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی اقوام متحدہ نے بھی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

تاہم یمن میں انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن ہشام العمیسی کے بقول یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ عالمی ادارے کے سربراہ بان کی مون نے یمن میں سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے کی گئی کسی فضائی حملے کی مذمت کی ہو۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں ہشام نے کہا کہ اقوام متحدہ گزشتہ سولہ مہینوں سے ایسے حملوں کی صرف مذمت ہی کرتا رہا ہے جبکہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برداری ان حملوں کی آزادانہ تحقیقات بھی نہیں کرا سکی ہے۔

ہشام نے یمن کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معلوم ہوتا ہے عالمی برداری نے سعودی عرب کو یمن میں سب کچھ کرنے کا ’اجازت نامہ‘ دے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمن میں تقریباﹰ دو ہزار بچوں کی ہلاکت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے باوجود سعودی عرب کے خلاف کوئی عالمی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

ہشام کے مطابق سعودی عرب کے مقابلے میں یمن ایک چھوٹا اور غریب ملک ہے اور عالمی برداری کو اس ریاست میں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ وہ نہ تو یہاں تجارت کر سکتی ہے اور نہ اسے کوئی اور مالی فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن سعودی عرب عالمی برداری کا ایک اہم اتحادی ملک ہے اور اس لیے اسے ’کھلی چھوٹ‘ ملی ہوئی ہے۔ انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا، ’’یمن میں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘

صنعاء میں سکونت پذیر سیاسی مبصر ہشام نے ایسے الزامات کو بھی رد کر دیا کہ حوثی باغیوں کے ساتھ ایرانی فورسز بھی لڑ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سولہ ماہ سے انہوں نے یمن میں کوئی ایرانی فوجی نہیں دیکھا، ’’یہاں تو کوئی ایرانی شہری تک نہیں ہے۔‘‘

Jemen Sanaa Hisham Al-Omeisi
صنعاء میں سکونت پذیر سیاسی مبصر ہشام نے ایسے الزامات کو بھی رد کر دیا کہ حوثی باغیوں کے ساتھ ایرانی فورسز بھی لڑ رہی ہیںتصویر: Privat

سعودی عرب پھر بھی بضد ہے کہ ایرانی فورسز حوثی باغیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔ ہشام نے دعویٰ کیا کہ حوثی باغیوں نے اگرچہ ایران سے مدد طلب کی تھی لیکن تہران نے انکار کر دیا تھا۔

ہشام کے مطابق سعودی نواز یمنی فورسز کا مطالبہ ہے کہ مذاکراتی عمل سے پہلے حوثی صنعاء سمیت دیگر علاقوں سے نکل جائیں اور اپنے ہتھیار پھینک دیں۔ ہشام نے کہا کہ حوثی باغی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ انہوں نے گزشتہ سولہ مہینوں سے اس مطالبے پر کان نہیں دھرے ہیں۔

ہشام کے بقول یمن میں قیام امن کے لیے عالمی برداری کو زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے سعودی عرب اور اس کی اتحادی فورسز کی شرائط کو نرم کرانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا سلسلہ باہمی احترام اور اعتماد سازی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں