سعودی عرب کی بربادی کا شکار ساکھ، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
17 اکتوبر 2018ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے جانے والے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ساٹھ سالہ سعودی کالم نگار جمال خاشقجی کی گمشدگی اور مشتبہ قتل کے واقعے پر اپنے تبصرے میں کَیرسٹن کنِپ لکھتے ہیں:
ریاض میں سعودی شاہی خاندان نے جو طرز سیاست اپنا رکھا ہے، وہ خود اس کے اپنے راستے اور ایک ریاست کے طور پر سعودی عرب کی راہ میں بھی ایک رکاوٹ ہے۔ سعودی عرب کے اسپیشل کمانڈوز کی جو 15 رکنی ٹیم اکتوبر کے شروع میں ترکی پہنچی تھی، اس کی منزل استنبول میں سعودی قونصل خانہ تھی، جہاں اس کے ارکان نے مبینہ طور پر منحرف ہم وطن صحافی جمال خاشقجی کا قتل کیا۔
اس واقعے کے نتائج اب تک ایک ایسے طوفان کی وجہ بن چکے ہیں، جس کے بارے میں اس کی وجہ بننے والے عناصر نے سوچا بھی نہیں تھا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی شاہی خاندان اب اس بارے میں ایک ایسا سرکاری لیکن وضاحتی بیان جاری کرنے والا ہے، جس میں کہا جائے گا کہ سعودی حکمرانوں کو اس جرم کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں تھا اور بظاہر چند افراد اعلیٰ سعودی حکام کی اجازت کے بغیر اپنے ہی طور پر ترکی گئے، جہاں وہ خاشقجی کی موت کی وجہ بنے یا خاشقجی کا پوچھ گچھ کے دوران انتقال ہو گیا۔
سی این این کے مطابق اس سرکاری بیان میں یہ بھی کہا جائے گا کہ سعودی شاہی خاندان اس جرم کے لیے گہری ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ عزم بھی کیے ہوئے ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد اور ان کے مددگاروں کو قانون کے سامنے جواب دہ بنایا جائے گا۔
’بدمعاش قاتلوں‘ کا کام
سعودی شاہی خاندان کی طرف سے وضاحتی بیان تو ابھی سامنے نہیں آیا لیکن ایک بہت بڑا اسکینڈل بن جانے والے ان واقعات میں ایک اور شخصیت نے بیان دینے میں کوئی دیر نہ کی۔ یہ شخصیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تھی، جنہوں نے سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد کہا کہ یہ کام ’بدمعاش قاتلوں کے ایک گروہ‘ کا ہے۔ اس بیان کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ شاہی خاندان میں اس واقعے کے ذمے دار افراد: کوئی بھی نہیں۔
امریکی انٹیلیجنس کا موقف
امریکی خفیہ اداروں کی اس بارے میں رائے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مختلف ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق انہوں نے سعودی سرکاری اہلکاروں کی ایک ایسی گفتگو بھی خفیہ طور پر سنی تھی، جس میں یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ خاشقجی کو اغوا کر کے سعودی عرب لایا جائے گا۔ امریکی انٹیلیجنس سے متعلق ان مبینہ رپورٹوں کے مطابق اس عرب ریاست کی نئی طاقت ور شخصیت یعنی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو، جنہیں انگریزی میں مختصراﹰ MbS بھی کہا جاتا ہے، کم از کم اس منصوبہ بندی کا علم تو تھا ہی۔
سنکی سیاست
امریکی انٹیلیجنس کے پاس مبینہ طور پر موجود ان شواہد سے کم از کم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ساکھ پر اثر تو پڑے گا۔ یہ بات بھی ناقابل فہم نہیں کہ اب خاشقجی کے معاملے میں بھی سعودی ولی عہد ہی کا نام آ رہا ہے، جو اپنے موجودہ سیاسی عہدے کی مختصر سی مدت میں اپنے کئی اقدامات اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر کی جانے والی سیاست کی وجہ سے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرا چکے ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان سعودی سیاست میں ذاتی طور پر اب تک کس طرح کے زیر و بم کی وجہ بن چکے ہیں، اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر خلیجی ریاست قطر کا بائیکاٹ اور عرب دنیا کی غریب ترین ریاست یمن کی اس سال اگست تک 5600 افراد کی ہلاکت اور قریب ساڑھے دس ہزار انسانوں کے زخمی ہو جانے کا سبب بننے والی وہ جنگ جس میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے دستے یمن میں مسلسل فضائی حملے کر رہے ہیں۔
اپنے ہی عوام کے خلاف بھی
سعودی حکمرانوں کو جب بھی اپنے طور پر کوئی وجہ نظر آتی ہے، تو وہ اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف جابرانہ اقدامات سے بھی گریز نہیں کرتے۔ رائف بدوی ایک ایسے سعودی بلاگر ہیں جنہوں نے ملکی سیاست پر بے ضرر سے تنقید کی تھی، لیکن وہ کئی برسوں سے جیل میں ہیں۔ اس کے علاوہ اسی سال موسم گرما میں سعودی حکام نے ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی سرگرم خاتون کارکنوں کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔
اصلاحات پسند ’پوسٹر بوائے‘
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ان کے کئی ہم وطن ’جدید سعودی عرب کی علامت‘ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک میں اصلاحات کے عمل کو تیز رفتار بناتے ہوئے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے اور سینما گھروں کو دوبارہ کھولنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے حامیوں کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان ایک ’بہت پرجوش اصلاحات پسند‘ رہنما ہیں۔ اب لیکن جمال خاشقجی کے معاملے سے ظاہر ہو گیا ہے کہ سعودی ولی عہد کی بظاہر دھلی دھلائی سیاست کے پیچھے دراصل کس طرح کا غیر لچکدار اور متشدد حد تک خود پسندانہ طرز سیاست چھپا ہوا ہے۔
اسی طرز سیاست کو آل سعود کے سیاسی مستقبل کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہو گا بھی، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ سعودی ریال چند روز قبل گزشتہ دو سال کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں نچلی ترین سطح پر آ گیا تھا۔ اس لیے کہ اقتصادی کامیابی میں ساکھ بھی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ریاض میں سعودی حکمرانوں کی صفوں کے اندر سے اب کسی کی طرف سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ آیا ’اصلاحات پسند پوسٹر بوائے‘ کے طور پر شہزادہ محمد بن سلمان ہی وہ سب سے مناسب شخصیت ہیں، جسے مستقبل میں خلیج کی اس قدامت پسند بادشاہت کی قیادت کرنا چاہیے۔
کَیرسٹن کنِپ / م م / ش ح