سعودی عرب کے تاراج شہر میں خوش آمدید
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک کے دروازے سب کے لیے کھولنا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں سیاح آثار قدیمہ کا ایک نایاب خزانہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ العلا نامی یہ قدیمی نخلستان ملک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
قدیم تہذیب
العلا کبھی خطے کے مختلف تجارتی راستوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس مقبرے کی طرح یہ علاقہ آثار قدیمہ کے خزانے سے بھرا ہوا ہے۔
ایک سو گیارہ مقبرے
مدائن صالح سعودی عرب کے مشہور شہر مدینہ سے تقریبا چار سو کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ العلا کے مضافات میں واقع یہ آثار قدیمہ سن دو ہزار آٹھ سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ دو ہزار برس پہلے یہاں پتھروں کو تراشتے ہوئے ایک سو گیارہ مقبرے بنائے گئے تھے۔
انجینئرنگ کا بہترین نمونہ
قدیم دور میں یہ قوم الانباط کا مرکزی اور تجارتی علاقہ تھا۔ یہ قوم اپنی زراعت اور نظام آبپاشی کی وجہ سے مشہور تھی۔ یہ قوم نظام ماسيليات (ہائیڈرالک سسٹم) کی بھی ماہر تھی اور اس نے اس خشک خطے میں پانی کے درجنوں مصنوعی چشمے تیار کیے تھے۔
قدیم زمانے کے پیغامات
قدیم دور کا انسان کئی پیغامات پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ وہ جملے ہیں، جو دو ہزار برس پہلے کنندہ کیے گئے تھے۔ امید ہے سیاح انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
مل کر حفاظت کریں گے
سعودی ولی عہد نے فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک مل کر ایسے قدیم شہروں کی حفاظت کریں گے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ان کو دیکھ سکیں۔
ایک نظر بلندی سے
اس کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے پہلے اس سے متعلقہ تمام اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔ مارچ میں پیمائش کے دو سالہ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ڈرونز اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
سیاحوں کے لیے ویزے
ابھی تک صرف مخصوص شخصیات کو ہی ان آثار قدیمہ تک جانے کی اجازت فراہم کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار پندرہ میں برطانوی پرنس چارلس کو العلا میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب سعودی عرب تمام سیاحوں کی ایسے اجازت نامے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
قیام گاہوں کی کمی
تین سے پانچ برسوں تک تمام سیاحوں کی رسائی کو العلا تک ممکن بنایا جائے گا۔ ابھی یہ شہر سیاحوں کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ فی الحال وہاں صرف دو ہوٹل ہیں، جن میں ایک سو بیس افراد قیام کر سکتے ہیں۔