سفری پابندی کے نئے حکم نامے پر عملدرآمد ہو پائے گا يا نہيں؟
8 مارچ 2017امريکی رياست ہوائی کے وکلاء نے ضلعی سطح کی عدالت ميں منگل کے روز يہ عنديہ ديا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ نئے حکم نامے کے خلاف قانونی کارروائی کريں گے۔ يہ چھ ممالک کے شہريوں کے عارضی بنيادوں پر امريکا داخلے پر پابندی سے متعلق حکم نامے کا پہلا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ رياست کی جانب سے اس حکم نامے پر عملدرآمد پر عارضی پابندی کے اطلاق کے طريقہ ہائے کار تلاش کيے جا رہے ہيں۔ ہوائی کے اٹارنی جنرل ڈگلس چن نے اس بارے ميں جاری کردہ ايک بيان ميں کہا ہے کہ اگر متعلق جج اس درخواست کو منظور کر ليتے ہيں، تو رياست کو باقاعدہ اپنا کيس تيار کرنے کا وقت مل جائے گا۔ يہ امر اہم ہے کہ نئے حکم نامے پر عملدرآمد سولہ مارچ سے شروع ہونا ہے۔
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے کے آغاز پر پير کے روز ايک نيا حکم نامہ جاری کيا، جس کے تحت امريکا ميں تمام پناہ گزينوں کے داخلے پر اگلے چار ماہ کے ليے پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ نوے ايام کے ليے شام، ايران، ليبيا، صوماليہ، يمن اور سوڈان کے شہريوں کے ليے ويزے جاری کيے جانے پر بھی پابندی ہو گی۔ اگرچہ يہ نيا حکم نامہ پچھلے حکم نامے سے زيادہ مختلف نہيں تاہم اس ميں کچھ معمولی تراميم کی گئی ہيں تاکہ اسے بھی پچھلے کی طرح قانونی سطح پر چيلنج نہ کيا جا سکے يا اسے رد کيے جانے کے امکانات کم ہوں۔
واشنگٹن اسٹيٹ کے اٹارنی جنرل باب فرگوسن نے کہا ہےکہ نئے ایگزيکيٹو آرڈر کا باريکی سے جائزہ ليا جا رہا ہے يہ جاننے کے ليے کہ اس کے رياست پر کيا اثرات مرتب ہوں گے اور ان کے آئندہ قانونی اقدامات کيا ہو سکتے ہيں۔ ان کے بقول وہ اس پيش رفت پر تشويش کا شکار ہيں ليکن آگلے دو تين روز ميں آئندہ کی حکمت عملی کے بارے ميں سوچيں گے۔
نيو يارک اميگريشن کوليشن کی ڈائريکٹر کيمل ميکلر نے تازہ حکم نامے کو بھی مسلمانوں پر پابندی قرار ديا ہے۔ ان کے مطابق يہ بھی اتنا ہی پريشان کن ہے جتنا کہ پہلا حکم نامہ تھا۔