’سقوط کابل‘، اب انتہا پسندانہ بیانیے کو تقویت ملے گی
15 اگست 2021افغانستان میں بیس سالہ غیر ملکی مداخلت کا بنیادی مقصد انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ بیانیے کا خاتمہ، ملک کی تعمیر نو و بحالی اور سول حکومت کی حاکمیت اعلیٰ کو مضبوط بنانا تو تھا ہی لیکن ایک اہم ایجنڈا افغان مقامی فورسز کی تربیت بھی تھا تاکہ وہ ملک میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آج اچانک لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی مقصد بھی پورا نہ ہو سکا۔
افغانستان میں امریکی اتحادی عسکری مشن اپنے آغاز کے ساتھ ہی تنقید کی زد میں رہا اور ناقدین نے اس وسطی ایشائی ملک میں قیام امن کی خاطر اپنائی گئی حکمت عملی پر بھی تحفظات ظاہر کیے تاہم اب جب امریکی افواج کے افغانستان سے باضابطہ انخلا سے قبل ہی طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے کابل کا محاصرہ کیا تو مین اسٹریم میڈیا میں بھی کھلے عام تنقیدی مباحثے شروع ہو گئے ہیں۔
کابل کا محاصرہ کرنے کے بعد طالبان نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ وہ خونریزی نہیں چاہتے، اس لیے صدر اشرف غنی کی حکومت پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی پر رضا مند ہو جائے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکی اور دیگر مغربی ممالک کابل سے اپنے اپنے سفارتی عملے اور شہریوں کو نکالنے کا ہنگامی آپریشن شروع کر چکے ہیں، اگر صدر اشرف غنی طالبان کی دھمکی میں نہ آئیں تو ان کے پاس اب کیا آپشن بچتا ہے، شاید ہم اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں مقامی سطح پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے غیر ملکی افواج کو کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے ساتھ ساتھ مذہبی بیانیے بھی رہے۔ تاہم اگر افغانستان کو غیر ملکی فوج مشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو شاید مقامی لوگوں کی اس حوالے سے رائے تبدیل ہو سکتی تھی کیونکہ وہ بھی ایک پرسکون زندگی چاہتے ہیں۔
افغانستان سے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا باضابطہ اختتام ہونے ہی والا ہے، تاہم اس ناکام عسکری مداخلت کے نتائج انتہا پسندانہ رویوں کے فروغ پر منتج ہوں گے۔ یہی کہا جائے گا آخر کار طالبان نے 'غیر ملکی طاقتوں‘ کو ملک سے نکال باہر کیا۔ سوویت جنگ ختم ہونے کے بعد کیا ہوا، یاد ہو گا آپ کو۔ کیا تاریخ خود کو دہرانے والی ہے؟
عام لوگ غالبا یہ نہیں سوچیں گے کہ انتہا پسندانہ نظریات کے حامل ان جنگجوؤں کا اقتدار سنبھالنا علاقائی سطح پر اور عالمی منظر نامے پر منفی اثرات مرتب کرے گا بلکہ ان کے مسائل تو انتہائی مختلف قسم کے ہیں یعنی امن، روٹی کپڑا اور مکان۔
امریکی حکومت کا یہ بیانیہ بھی مجھے مطمئن نہیں کر سکا کہ اب طالبان وہ نہیں رہے بلکہ سیکھ گئے ہیں اور وہ اب ویسا نہیں کریں گے جیسا انہوں نے انیس سو چھیانوے تا سن دو ہزار ایک کے دوران کیا تھا۔ یہ وہی بات ہے کہ 'نئے طالبان مہذب‘ ہو چکے ہیں۔