1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلامتی کونسل ميں شام کے خلاف بيان پر روس کی مخالفت

عاصم سليم9 جنوری 2014

رُوس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اُس بيان کو روک ديا ہے جِس ميں شامی حکومت کی جانب سے ملک ميں کيے جانے والے فضائی حملوں کی شديد الفاظ ميں مذمت کی جانا تھی۔ اس کا مسودہ برطانيہ کی جانب سے تيار کيا گيا تھا۔

https://p.dw.com/p/1And1
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اقوام متحدہ کے سفارت کاروں کے ذرائع سے بتايا ہے کہ اِس بيان ميں شام کے صدر بشار الاسد کی حامی افواج کی جانب سے ملک کے بيشتر شہروں پر فضائی حملوں سميت ميزائلوں اور ’بيرل بموں‘ کے استعمال پر شديد الفاظ ميں مذمت کی جانا تھی۔ تاہم بدھ آٹھ جنوری کو روس نے اِس بيان کی مخالفت کرتے ہوئے اِسے رکوا ديا ہے۔

اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک سفارت کار نے بتايا کہ کونسل آٹھ جنوری کو اتفاق پر نہيں پہنچ سکی کيونکہ مسودے ميں روس کی جانب سے تجويز کردہ تراميم واضح طور پر اس سچائی پر پردہ ڈالنے کے ليے ہيں، جو شام ميں رونما ہوئی۔

اقوام متحدہ ميں رُوسی مشن کے ترجمان نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی رد عمل ظاہر کرنے سے انکار کر ديا۔

اِس بيان کے مسودے کو برطانيہ کی جانب سے تيار کيا گيا ہے اور اِس ميں شام کے شمالی شہر حلب ميں سرکاری افواج کی جانب سے گزشتہ دنوں کيے جانے والے خونريز فضائی حملوں پر کڑی تنقيد اور ان کی مذمت کی جانا تھی۔ مختلف اندازوں کے مطابق وہاں دسمبر کے وسط سے اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک اور تين ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہيں۔

اکيس اگست 2013ء کو دمشق کے نواحی علاقے ميں سارن گيس استعمال کی گئی
اکيس اگست 2013ء کو دمشق کے نواحی علاقے ميں سارن گيس استعمال کی گئیتصویر: Reuters

دمشق انتظاميہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی زمانے ميں شام کے کاروباری مرکز اور سب سے بڑے مانے جانے والے شہر حلب ميں باغيوں سے لڑ رہی ہے۔ يہ شہر اب باغيوں اور حکومت کے درميان تقسيم ہو چکا ہے۔

واضح رہے کہ روس گزشتہ ماہ 19 دسمبر کو بھی اس طرز کے ايک بيان کی مخالفت کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ ماسکو اور بيجنگ شام کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تين قرارداديں بھی مسترد کر چکے ہيں۔

ماسکو انتظاميہ کو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا حامی مانا جاتا ہے۔ شام کے خلاف کسی بڑی کارروائی کی راہ ميں سب سے بڑی رکاوٹ روس ہی ہے۔ 15 رکنی سلامتی کونسل شام کے موضوع پر منقسم ہے اور مسلسل تعطلی کا شکار ہے، جس سبب اسے کڑی تنقيد کا سامنا رہا ہے۔ گزشتہ برس سمتبر اور اکتوبر ميں اس تعطلی کی صورت حال ميں بہتری اس وقت آئی جب مبينہ طور پر شامی افواج کی جانب سے دمشق کے نواح ميں کيے جانے والے کيميائی حملوں کے تناظر ميں سلامتی کونسل ميں ايک قرارداد منظور کی گئی، جس ميں شامی کيميائی ہتھياروں کی تلفی کا مطالبہ کيا گيا۔ سفارت کاروں کے بقول اِس پش رفت ميں امريکی صدر باراک اوباما کی فضائی حملوں کی دھمکی کا بڑا کردار تھا۔ امريکی صدر نے 21 اگست سن 2013 کے روز دمشق کے ايک مضافاتی علاقے ميں سارِن گيس کے استعمال کے رد عمل کے طور پر شامی حکومت کے خلاف فضائی حملوں کی دھمکی دی تھی۔ واشنگٹن اور ديگر مغربی ممالک ان حملوں کی ذمہ داری صدر اسد کی حکومت پر عائد کرتے ہيں جبکہ دمشق کا موقف ہے کہ ان حملوں ميں باغی ملوث تھے۔

واضح رہے کہ شام ميں گزشتہ قريب تين برسوں سے جاری حکومت مخالف تحريک ميں اب تک ايک لاکھ سے زيادہ افراد ہلاک جبکہ لاتعداد بے گھر ہو چکے ہيں۔