سلمان تاثیر کے ساتھ اعتدال پسندی کی امید بھی دم توڑ گئی
5 جنوری 2011فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس قتل سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہےکہ ملک میں شدت پسندی کی جڑیں کس حد تک گہری ہو چکی ہیں اور اعتدال پسندوں کی طرف سے گزشتہ کئی برسوں سے جاری کوششوں کے باوجود معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں کوئی خاص تبدیلی سامنے نہیں آ سکی۔
تجزیہ نگاروں کے بقول ملک ممتاز حسین قادری، ایلیٹ فورس کا ایک باریش کمانڈو، جسے سلمان تاثیر کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اس نے دن دیہاڑے گورنر پنجاب سلمان تاثیرکے جسم میں، دوسرے محافظوں کی موجودگی میں 30 گولیوں داغ دیں۔
حکام کے مطابق قادری نے اُس روز رضاکارانہ طور پر خود کو ڈیوٹی کے لئے پیش کیا۔ اس نے اچھی طرح دیکھا کہ اُس کا ہتھیار پوری طرح لوڈ ہے۔ سلمان تاثیر ایک دعوت پر اسلام آباد کے ایک بڑے کافی ہاؤس میں تھے، تو وہ باہر ان کی گاڑی کے ساتھ کھڑا ان کا منتظر رہا۔ سلمان تاثیر کے کافی ہاؤس سے باہر نکلتے ہی، ممتاز قادری نے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ بعد میں اس اہلکار نے ہتھیار ڈال کر خود کو دوسرے پولیس کمانڈوز کے سامنے پیش کر دیا۔ اس تمام عرصے میں کسی دوسرے پولیس اہلکار نے نہ تو اس پرگولی فائر کی اور نہ ہی اسے طاقت کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی۔ یہ واقعہ جس جگہ پیش آیا، یہ اسلام آباد کا وہ حساس ترین علاقہ ہے، جہاں غیر ملکی خصوصا مغربی ممالک کے شہری عموما دکھائی دیتے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ آیا قادری کا یہ اقدام انفرادی تھا یا اس کے پیچھے کوئی سازش تھی، یہ بات طے ہے کہ پاکستان کی ایلیٹ فورس تک میں ایسے عناصر موجود ہیں، جوکسی نہ کسی حد تک اپنی سوچ میں طالبان کے نظریے پر عمل پیرا ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہےکہ شدت پسندی کس طرح پاکستانی معاشرے میں رچ بس چکی ہے۔
پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے میں لکھا گیا ہے : ’’اس فائرنگ سے یہ واضح ہےکہ شدت پسند صرف لمبی داڑھیوں اورکالی چادروں والے طالبان کی صورت میں نہیں بلکہ معاشرے میں ہر طرف ہر طرح کے لباس میں پھیل چکے ہیں۔‘‘
اس پاکستانی اخبار کے مطابق : ’’گورنر کی ان کے اپنے ہی ایک محافظ کے ہاتھوں ہلاکت سے شاید کچھ عناصر اس معاملے پرکھل کر بات نہ کریں۔ مگر اب یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا کیا ہم کبھی شدت پسندی کے اس اثر سے باہر نکل پائیں گے؟‘‘
پاکستان میں شہری تعلیم کے آزاد مرکز کے ڈائریکٹر ظفر اللہ خان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے AFP سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ’’مستقبل تاریک ہے۔ پاکستان میں کسی موضوع پر بحث یا مذاکرے کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی۔ اس وائرس نے پورے معاشرے کو برباد کر دیا ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام، سیاستدان اور حکومت کسی کے پاس اس مرض کا علاج نہیں ہے۔‘‘
پاکستان میں خاصی غیر مذہبی جماعت سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اگر اس کے سب سے بااثر گورنر کو قتل کیا جا سکتا ہے، تو یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ شدت پسند پاکستانی معاشرے میں ہر اس شخص کو قتل کر سکتے ہیں، جو کسی بھی طرح ان کے نظریات سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔
پاکستان میں اعتدال پسندی کے حوالے سے خاصے سرگرم سپریم کورٹ کے وکیل انیس جیلانی کے مطابق سلمان تاثیرکا قتل پاکستان میں جمہوری قوتوں کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے۔
’’مختلف سوشل نیٹ ورکس پرگورنر پنجاب کے قاتل کے لئے حمایتی تحریریں اور تصاویر یہ بات ثابت کرتی ہیں کہ پاکستان میں صرف مدرسے ہی شدت پسندی کا باعث نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگ، جو انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں، وہ بھی شدت پسندی کے عفریت سے متاثر ہو چکے ہیں۔‘‘
جائزہ : عاطف توقیر/ خبر رساں ادارے
ادارت : عدنان اسحاق