1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سمندری راستے سے برطانیہ پہنچنے والے مہاجرین میں اضافہ

15 اگست 2020

برطانیہ کو حالیہ ہفتوں کے دوران سمندر کے ذریعے وہاں پہنچنے والے مہاجرین میں اضافے کا سامنا ہے۔ یہ مہاجرین شمالی فرانس سے برطانیہ پہنچنے کے لیے کسی قسم کے خطرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔

https://p.dw.com/p/3h16r
Ärmelkanal Aufbringung von Bootsflüchtlingen
تصویر: picture-alliance/empics/G. Fuller

رواں برس جنوری سے اب تک 4000 سے زائد سیاسی پناہ کے متلاشی شمالی فرانس میں واقع بوسیدہ اور گندے کیمپوں کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ ان کے بارے میں صرف اتنی معلومات دستیاب ہے کہ ان کی حتمی منزل برطانیہ ہے۔ ایسی مصدقہ معلومات دستیاب نہیں کہ آیا یہ چار ہزار افراد برطانوی سرزمین تک پہنچ پائے ہیں۔

ایسا بھی بتایا گیا ہے کہ ان تارکین وطن کی پوری کوشش ہے کہ وہ کسی طرح انگلینڈ کے جنوبی ساحل تک پہنچ جائیں جس کے لیے مشکل اور خطرناک سمندری سفر کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب ان کا برطانیہ میں پہنچ کر بھی مستقبل روشن ہونے کا کوئی امکان بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔

برطانیہ پہنچنے کی خواہش رکھنے والا ایک ایسا ہی تارک وطن گل ولی پاسارلے بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ جب وہ شمالی فرانس کے ساحلی مقام کالَے پہنچا تھا تو اس کو امید ہو گئی تھی کہ ایک دن وہ برطانیہ پہنچ جائے گا۔ اس کے بہتر مستقبل کی یہ امید جلد ہی غیر یقینی حالات کا شکار ہو کر ناامیدی میں تبدیل ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیے:

جنوبی یورپ میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور المناک حالات

بحری جہاز پر پھنسے مہاجرین کو بالآخر اٹلی نے قبول کر لیا

گل ولی پاسارلے کا کہنا ہے کہ کالَے پہنچ کر اس کو انتہائی غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے کئی مرتبہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے پولیس اسٹیشن کے ایک کمرے میں گزارے۔ اس نے تاسف سے کہا کہ کالَے میں محسوس ہوا کہ اس جیسے تارکین وطن کی وہاں کوئی عزت اور حیثیت نہیں۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے گل ولی پاسارلے پندرہ سال قبل ملکی جنگی حالات کے سبب وہاں سے نکلے تھے۔

گل ولی پاسارلے مختلف انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا تنہا دو براعظموں کو عبور کرتا اس امید کے ساتھ کالَے پہنچا کہ ایک دن وہ برطانیہ میں اپنے بھائی کے پاس پہنچ جائے گا۔ اس طویل تھکا دینے والے سفر کے دوران اسے حراستی مراکز کے ساتھ ساتھ اسمگلروں کے ٹارچر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کا سفر کالَے سے آگے بڑھ نہیں پایا مگر فرانس میں اب گل ولی پاسارلے ایک سرگرم کارکن بن چکا ہے۔

افغان شہری پاسارلے سمندر کے خطرناک سفر سے گبھراتا رہا لیکن رواں برس چار ہزار افراد مختلف طریقوں سے انگلینڈ تک پہنچنے کا سفر اختیار کر چکے ہیں۔ ان لوگوں نے کمزور اور چھوٹی کشتیوں پر سوار ہونے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان میں کئی نابالغ بھی شامل تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سن 2015 کے مہاجرین کے بحران کے بعد سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین نے برطانیہ کا سفر اختیار نہیں کیا تھا۔ صرف رواں ماہ اگست میں اب تک ساڑھے چھ سو مہاجرین برطانوی سرزمین پر قدم رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ چھ اگست کو دو سو پینتیس افراد برطانیہ پہنچے، جو حالیہ برسوں میں ایک ریکارڈ تعداد ہے۔

UK Gulwali Passarlay
گل ولی پاسارلے مختلف انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا تنہا دو براعظموں کو عبور کرتا اس امید کے ساتھ کالَے پہنچا کہ ایک دن وہ برطانیہ میں اپنے بھائی کے پاس پہنچ جائے گا۔تصویر: Privat

کالَے سے جنوبی انگلینڈ میں داخل ہونا مہاجرین کے طویل سفر کی آخری منزل ہوتی ہے۔ یہ مہاجرین تقریباً پانچ ہزار کلو میٹر کا سفر مکمل کرتے ہیں۔ اس فرانسیسی ساحلی شہر میں آج بھی دو ہزار کے لگ بھگ مہاجرین برطانیہ پہنچنے کا خواب لے کر خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں پہنچنے والے افراد کی تعداد میں سست انداز میں اضافہ بھی جاری ہے۔

ہر ہفتے سینکڑوں مہاجرین سمندر کو عبور کرنے کا سفر شروع کرتے ہیں۔ اس سفر کے لیے انسانی اسمگلر ان پریشان حال تارکین وطن سے ہزاروں ڈالر میں سودے طے کرتے ہیں۔ ایک برطانوی امدادی تنظیم 'مِسنگ پیپل‘ سے منسلک خاتون جین ہنٹر کا کہنا ہے کہ کئی برطانیہ پہنچنے والے نوجوان اور نا بالغ افراد کو منزل تک پہنچانے کا جھانسہ دے کر استحصالی گروپس اپنے کنٹرول میں لے لیتے ہیں۔ برطانوی حکومت انسانی اسمگلرز اور منظم جرائم پیشہ گروپوں کے خلاف خفیہ انداز میں کارروائی شروع کرنے کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے۔

ع ح / ا ب ا (السڈیئر لین)